صحافی موت سے نہیں گھبراتے جان ہتھیلی پر رکھ کر جیتے ہیں

صحافت ایک مقدس اور معتبر ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید میں خبر کو ”نبا اور خبر رکھنے والے کونبی کہا گیا “ ۔ صحافت پیغمبری پیشہ ہے۔ اللہ نے قلم اور دوات کی قسم کھائی ہے۔ زبان و قلم امانت خداوندی ہے۔ ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھیں تو صحافت کی اہمیت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس لئے دین اسلام سے وابستہ لوگوں کو بے راہ روی کے خلاف ڈٹ جانے کا حکم دیا ہے

جمعرات 4 مئی 2017

Sahafi Mot Se Nahi Ghabrate
جی آر اعوان:
صحافت ایک مقدس اور معتبر ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید میں خبر کو ”نبا اور خبر رکھنے والے کونبی کہا گیا “ ۔ صحافت پیغمبری پیشہ ہے۔ اللہ نے قلم اور دوات کی قسم کھائی ہے۔ زبان و قلم امانت خداوندی ہے۔ ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھیں تو صحافت کی اہمیت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس لئے دین اسلام سے وابستہ لوگوں کو بے راہ روی کے خلاف ڈٹ جانے کا حکم دیا ہے۔

انسانی دماغ کا ماحاصل اگر افکار ہیں تو قلم کو روشنی خون جگر عطا کرتا ہے۔ہمارا وطن ایک جمہوری وطن ہے جمہوریت میں آزادی رائے پر کوئی قدغن نہیں۔ جمہوری نظام کا حسن صحافت کی آزادی ہے۔ آج دنیا بھر میں یوم صحافت منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر قلم سے وابستہ کوچہ صحافت کے تمام نشین یہ عہد کرتے ہیں کہ ذاتی مفادات سے قطع نظر حق اور سچ کو سامنے لانے کے لئے وہ بے خطر آتش باطل کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں گے۔

(جاری ہے)

حضرت علی فرماتے ہیں الفاظ انسان کے اس وقت تک غلام رہتے ہیں جب تک ادا نہیں ہو جاتے اور ادائیگی کے بعد انسان الفاظ کا غلام بن جاتا ہے۔ قلم کی قسم کھانے والے پروردگار کے رسول خدا نے زبان کو انسان کا سرمایہ اور اثاثہ قرار دیا ہے۔ قلم خدا کی امانت اور زبان اثاثہ خداوندی ہے۔ صحافت قلم و زباں کے اعجاز سے فروغ پاتی ہے۔ تخریبی جذبات کی افزائش کو روکنے اور تعمیر و اصلاح کے فروغ کے لئے صحافت واحد ذریعہ ہے۔

یہی پیشہ معاشرے سے کج راہ روی کے خاتمے اور اصلاح آگیں مہذب روش پر گامزن کرنے کا ذمہ دار ہے۔
صحافی کی اصل یہ ہے وہ خوف خدا سے لرزاں ترساں رہتا ہے۔ مسلسل سفر سے تھکتا ہے نہگرتا ہے ، جھکتا ہے نہ بکتاہے۔ پہاڑوں کا جگر اور چیتے کی نظر رکھنے والے حق پرستوں کا یہ وہ گروہ ہے جس کا سفر ہمیشہ تقدیر اور تدبیر کے درمیان جاری رہتا ہے۔ صحافت سے وابستہ اہل دانش کی سوچ اور فکر سے معاشرے کے ہر طبقے کی علمی اور تربیتی آبیاری ہوتی ہے۔

ناظرین، قارئین، سامعین اس خردمند طبقے کی دانش ورانہ فکر سے اثر قبول کرتے ہیں چنانچہ قلم کے سپاہیوں اور دانش کے شہ دماغوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کے قلم اور زبان سے جو کچھ عوام تک پہنچے وہ ذمہ دارانہ ہو۔ ذرا سی غیر ذمہ داری حلال و حرام کے درمیان باریک سی لکیر پار کرنے کے مترادف ہو جاتی ہے اور نتائج نیکی کے بجائے برائی کی صورت میں برآمد ہو جاتے ہیں۔

میٹھے بول میں جادو ہے۔ کڑوے الفاظ اور سخت باتیں لفظوں کی شکر میں ڈبو کر شوگر کوٹیڈ صورت میں پیش کرنا ایک ہنر ہے تاکہ کڑوی دوا جیسے میٹھی گولی بن کر حلق سے اترتے وقت کسی مشکل کا شکار نہیں ہوتی اور جسم کے اندر پہنچ کر پیغام شفا بن جاتی ہے۔ دماغ اور دل کے اندر افکار زبان اور قلم کے عمدہ اظہار سے سوچوں کے حلق سے باآسانی گزر جائیں تو فکر کے ابدان میں اصلاح اور شفا کی منزل پالیتے ہیں۔


پاکستان میں بھی دنیا بھر کی طرح یوم صحافت تزک احتشام سے منایا جاتا ہے۔ تقریبات اور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے کارزار صحافت میں صحافیوں کی قربانیاں دیگر ممالک سے زیادہ ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں جب بھی آمروں یا جمہوری حکمرانوں نے اپنی بقا کے لئے عوام کی طرف سے اٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش کی صحافتی اداروں اور تنظیموں نے ہر قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر عوام کی آواز کو دبنے سے محفوظ رکھا۔

جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا اللہ کے رسول کا وہ فرمان ہے جس کو زندہ جاوید نواسہ رسول نے میدان کربلا میں بنایا اسی کا تسلسل صحافت کے پیشے میں برقرارہے۔ روزنامہ نوائے وقت آج بھی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کے فلسفے پر کاربند ہے۔ اس باوقار روزنامے کی پیشانی آج بھی اس حدیث نبوی کے جھومر سے آراستہ ہے ۔ یہی صحافت کی اصل اور اعجاز ہے۔

پاکستانی صحافیوں کا یہ طرہ امتیاز بھی ہے۔ انہوں نے جیلیں، قیدیں اور کوڑوں کی سزائیں بھگتیں مگر قلم کی حرمت اور آبرو پر آنچ نہیں آنے دی۔ اخبارات کی سنسر شپ برداشت کی، مالی نقصانات اٹھائے، اخباربند کرائے مگر حق اور سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ صحافی موت سے نہیں گھبراتے، سچ کی خاطر جان تلی پر رکھ کر جیتے ہیں۔حکومتوں کی جانب سے وعدوں کے باوجود صحافیوں کی سکیورٹی کا مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے۔

فیلڈ میں جانے والے صحافیوں کے لئے بلٹ پروف جیکٹس اور دیگر حفاظتی انتظامات ناگزیر ہیں۔ صحافیوں کی زندگی کے تحفظ کی ضمانت کوئی نہیں، کسی بھی بڑے واقعے کے بعد تاسف آمیز بیانات اور لواحقین کے مالی اعانت کے اعلانات کسی مسئلے کا حل نہیں ۔ صحافت کی عالمی تنظیموں کا یہ اندیشہ درست ہے کہ سرزمین پاکستان روئے زمین پر صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک ہے۔

یہ خطہ دن بدن قلم کے امینوں کے لئے غیر محفوظ بنتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا ہاوٴسز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رپورٹرز کو بریکنگ نیوز کی تلاش میں خود بریکنگ نیوز بننے سے بچائیں تین مئی کے عالمی یوم صحافت پر یہ عہد کرنا لازم ہے کہ راہ صحافت میں جام شہادت نوش کرنے والے صحافیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دی جائیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Sahafi Mot Se Nahi Ghabrate is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 May 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.