سانحہ احمد پور شرقیہ نے ہنستے بستے گھر اجاڑدیئے!

حادثہ کے وقت مقامی انتظامیہ کہاں تھی؟

بدھ 5 جولائی 2017

Saneha Ahmedpur Shirqia Ne Hanstay Bastay Ghar Ujar Diay
غازی احمد حسن کھوکھر:
گزشتہ ہفتے کے دوران اتنے واقعات رونما ہوئے جن پر ہر دل خون کے آنسو روتا ہے لگتا ہے ملک پر کوئی حکومت نہیں ہے۔کوئٹہ ،پارا چناء کے سانحہ میں قیمتی انسانی جانوں کی آہ وبکا ختم نہیں ہوئی تھی کہ احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر کا سانحہ پیش آگیا جس میں حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 190 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور تقریباََ اتنے ہی زخمی لاہور ملتان میں زیر علاج ہیں۔

حکومت اور آرمی کی طرف سے علاج معالجہ کی کاوشیں قابل تحسین وزیراعظم میاں نواز شریف کا لندن سے واپس آنا اور بہاولپور میں زخمیوں اور شہداء کے ورثاء سے ہمدردی کرنا قابل ستائش ہیں۔میاں نواز شریف نے زخمیوں سے ملاقات کے دوران جو گفتگو ہوئی وہ دردناک اور مشکلات و مصائب زدہ لوگوں کی اس مصیبت کی گھڑی میں بھی فریادیں تھیں جو عام حالات میں انہیں درپیش ہیں وزیراعظم اور وزیرا علیٰ نے اپنے تیئں خوب باتیں کیں۔

(جاری ہے)

وزیر اعلیٰ نے پنجاب کے چیف سیکرٹری زاہد سعید اور سیکرٹری صحت نجم شاہ اور کمشنر،آر پی او،ڈی پی او اور ڈی سی او بہاولپور کی تعریف کی۔وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی کوشش اپنی جگہ تسلیم،مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ملک میں گڈگورنس کی حالت درست ہے؟ہائی وے پر یہ سانحہ پیش آیا۔کار،موٹر سائیکل ،ٹرک، ٹریکٹر ٹرالی، بسوں سے محض چالان اور رقوم بٹورنے کیلئے پولیس ہے،
اگر کوئی گاڑی اوور سپیڈ ہو تو ہائی وے اور موٹر وے پولیس کو علم ہوجاتا ہے،کیا اتنا بڑا حادثہ ہوا کوئی ایک دم تو لوگ جمع نہیں ہوئے ہونگے؟مقامی پولیس اور ہائی وے پولیس کہاں تھی؟اب ان کی طرف سے بہانے اور جھوٹ کا سہارا لیکر مطمئن کرنا شرمناک ہے۔


میڈیا کے ذریعے غربت،غربت، کا ذکر ہورہا ہے۔
بے شک ہلاک شدگان سے انسانی ہمدردی ہے ان کے ورثاء سے بے پناہ ہمدردی ہے ان کے ورثاء سے بے پناہ ہمدردی ہے لیکن اصل حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا سکتا۔کاروں ،موٹر سائیکلوں،ویگنوں،ٹرکوں،رکشوں والے بھی گھروں سے بھاگ پڑے افسوس تو یہ ہے کہ بعض نابالغ بچوں کو بھی ساتھ لے آئے۔کاریں ،ویگنیں،موٹرسائیکلیں جل کر راکھ ہو گئیں۔

انسان جل کر راکھ ہوگئے۔کس قدر قیامت کا منظر ہوگا۔اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے تمام انسانوں ،چرند پرند،جانوروں کو بھی محفوظ رکھے ۔آمین۔اب ذرا جنوبی پنجاب کی ترقی کارونا رونے والوں کا ذکر ضروری ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ملتان شہر میں غیر ضروری میٹروبس کا منصوبہ دے کر قوم کے تقریباََ38 ارب روپے ضائع کردیئے ۔اگر سڑکیں کشادہ کردی جاتیں تو شہر سے ٹریفک کا دباؤ ختم ہوجاتا ہے۔

سیوریج سسٹم درست کردیا جاتا۔
پیراں غائب روڈ اور عزیز ہوٹل چوک والے بجلی گھر چالو کرکے جنوبی پنجاب کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارا مل سکتا تھا۔میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خود بیورو کریسی کے پسندیدہ ترین ہیں۔یہ وزیراعلیٰ کو سمجھ آگئی ہے انہیں دیر تک پنجاب کا وزیراعلیٰ اہنے کا ہنر آگیا ہے۔
کسی وزیر ایم این اے ،ایم پی اے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

”جاتے چور کی لنگوٹی سہی“کے مصداق پر کام چل رہا ہے ۔وزیر مشیر ممبران اسمبلی ”جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی میری اوقات نہیں“پر عمل کرتے ہوئے گزارا کر رہے ہیں۔ہر دور میں گورنر وزیراعلیٰ ،صدر وزیراعظم اور بڑے بڑے مراتب پر فائز رہنے والے کس منہ سے تنقید کرتے ہیں
گورنر رفیق رجوانہ اپنا علاج لندن کروانے گئے ہوئے ہیں۔انہوں نے کیوں نہیں بنوائے۔

ان کی طرف سے کبھی مطالبہ کیوں نہیں آیا؟یہ لوگ اسمبلیوں میں علاقائی مسائل پر تو بات نہیں کرتے محض بیان دے کر سیاست کو بدنام کر رہے ہیں۔سیاست مقدس فریضہ ہے مگرلالچی نااہل جھوٹے لوگوں نے سیاست نہیں کرنی چاہیے۔اگر سیاست جرم اور باعث شرم ہے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ اس سانحہ کی تحقیقات کروائیں۔دہشت گردی بھی ہوسکتی ہے۔

پھر ضلعی پولیس اور ہائی وے پولیس اور انتظامیہ کی تعریف اپنی جگہ مگر حادثہ کس وقت ہوا اور سانحہ کس وقت پیش آیا اتنے وقت میں لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ لوگ تیل بھر بھر کر جارہے ہیں۔اور وہ بھی آگئے۔انتظامیہ کو علم کیوں نہ ہوا؟نااہلی صاف ظاہر ہے جنوبی پنجاب کے تمام چھوٹے بڑے ہسپتالوں کو فعال کیا جائے اور ”برن یونٹ“بنائے جائیں۔آج نشتر ہسپتال میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور کور کمانڈر ملتان اور آئی ایس پی آر ملتان کے انچارج میجر تاج محمد مینگل نے زخمیوں کی عیادت کی اور ہسپتال انتظامیہ کو ہر ممکن امداد کی ہدایت کی۔

حالت تو یہ ہے کہ جمشید دستی ایم این اے کو کسانوں کے مسئلے کو حل کرنے اور مرجھائی فصلوں کو پانی مہیا کرنے کیلئے بلاوجہ بند کی گئی نہروں کو کھولنے کے جرم میں پابند سلاسل کیا ہوا ہے۔
ان سے ملاقات پر پابندی اور انہیں جیل میں اذیت دی جارہی ہے ،ان کے کمرے میں چوہے چھوڑدئیے جاتے ہیں حتیٰ کہ عیدا لفطر کے موقع پر رہائی ملنے کے باوجود فرضی مقدمہ قائم کرکے جیل میں بند کیا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Saneha Ahmedpur Shirqia Ne Hanstay Bastay Ghar Ujar Diay is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 July 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.