
سیاست میں بڑی ہلچل ہے
پاکستان کی سیاست میں اس وقت بڑی ہلچل ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے مابین سیاسی محاذ آرائی، خیبرپختونخوا میں دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد کی کوششیں جبکہ پنجاب میں شریف فیملی کے خلاف تنگ ہوتے ہوئے قانونی شکنجے نے بہت سے سوالات پیدا کر دئیے ہیں۔
بدھ 15 نومبر 2017

پاکستان کی سیاست میں اس وقت بڑی ہلچل ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے مابین سیاسی محاذ آرائی، خیبرپختونخوا میں دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد کی کوششیں جبکہ پنجاب میں شریف فیملی کے خلاف تنگ ہوتے ہوئے قانونی شکنجے نے بہت سے سوالات پیدا کر دئیے ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے دو رہنماؤں کو بھی سپریم کورٹ میں نااہلی کے دو کیسوں کا سامنا ہے۔ لیکن چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کے ریمارکس اور آبزرویشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کے واراور صدمے سے بچ جائیں۔ انتخابی عمل بھی بہت قریب ہے۔ اس کے انعقاد کو چھ، سات ماہ رہ گئے ہیں۔ شاید اسی لیے اہم سیاسی رہنماؤں کے بیانات میں تیزی آ گئی ہے۔
(جاری ہے)
جس سے ماحول نہایت کشیدہ دکھائی دیتا ہے۔
لگتا ہے یہی صورت حال رہی تو شاید 2018ء کا انتخابی ماحول پرامن نہ رہ سکے۔نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھی بہت سی جماعتوں کو تحفظات ہیں۔ پی ٹی آئی مسلسل زور دے رہی ہے کہ الیکشن وقت سے پہلے کرائے جائیں کیونکہ موجودہ حکومت اپنا اعتماد کھو چکی ہے جبکہ حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ (ن) وقت سے پہلے انتخابات کرانے کے حق میں نہیں۔ پیپلز پارٹی کا بھی خیال ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونے چاہئیں۔ تاہم تین صوبوں یعنی پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی سیاسی رسہ کشی نے ماحول کو بہت گرما دیا ہے۔ہفتہ پہلے سندھ میں جو صورت حال رہی وہ بہت ہی چونکا دینے والی تھی۔ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کے اتحاد اور انضمام کی خبریں آئیں۔ لیکن ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے اعلانات پر مبنی یہ ”اتحاد“ اور ”انضمام“ ٹوٹ گیا۔ فاروق ستار نے اپنی پہلی کانفرنس کے اگلے ہی روز ایک اور پریس کانفرنس کی جس میں پی ایس پی سے ”نکاح“ ٹوٹنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ اس اعلان پر سب حیران رہ گئے۔ اس پریس کانفرنس میں فاروق ستار کا یہ انکشاف بھی چونکا دینے والا تھا کہ انہوں نے اس پریس کانفرنس میں سب کچھ کھول کر میڈیا اور قوم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ صرف ایک پورشن چھپایا ہے۔ چونکہ اس ”پورشن“ کا تعلق نہایت ہی حساس معاملات سے ہے۔ اس لیے وہ اس پر کسی اور مناسب وقت پر روشنی ڈالیں گے۔ تاہم انہوں نے یہ بتا کرتجزیہ کاروں کی مشکل کسی حد تک کم کر دی کہ پی ایس پی کے ساتھ ایم کیو ایم کے جو بھی معاملات ہوئے اْس کے پس منظر میں انہوں نے ایک خط وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو ارسال کر دیا ہے جس کی کاپی آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس پی آر اور وفاقی وزیر داخلہ کو بھی ارسال کی ہے۔ خط کے مندرجات کیا ہیں، اس پر فاروق ستار نے ابھی کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ لیکن تجزیہ کاروں اور خبر نگاروں نے نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ فاروق ستار کا واضح اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔ ایک مستندٹی وی چینل کے معروف اینکر کی اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کی اس ملاقات کا اہتمام جہاں کیا گیا وہاں ایک اہم غیر سیاسی شخصیت اور تحریک انصاف کے ایک رہنما بھی موجود تھے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فاروق ستار پر پاک سرزمین پارٹی سے اتحاد اور انضمام کے لیے خاصا شدید دباؤ تھا۔ لیکن بعد میں ایم کیو ایم کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں اور دباؤ کی وجہ سے فاروق ستار کو پی ایس پی سے اتحاد اور انضمام کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ فاروق ستار اور ان کے دیگر ساتھیوں کا موقف ہے کہ ان کے ایم این ایز، ایم پی ایز، اور سینیٹرز پر پی ایس پی کو جائن کرنے کے لیے خاصا دباؤ موجود ہے۔ یہ کون کر رہا ہے اور کون دباؤ میں لا رہا ہے ؟ اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔یہ تو رہی سندھ کی سیاست۔ خیبرپختونخوا میں بھی اب پی ٹی آئی کے لیے کھلا سیاسی میدان نہیں ہو گا۔ دینی جماعتیں جو، اب ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو رہی ہیں۔ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دیں گی۔ اس سے پہلے، اس اتحاد کی خیبر پختونخوا میں پانچ سال قبل حکومت رہ چکی ہے۔ چونکہ اس صوبے کے لوگوں میں مذہبی وابستگی زیادہ پائی جاتی ہے اس لئے گمان غالب ہے کہ یہاں کے لوگوں کی اکثریت مذہبی جماعتوں کے اس ”اتحاد“ کو ووٹ دیں گی۔ جس سے پی ٹی آئی کے لیے اگلے الیکشن میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔پنجاب اگرچہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے، لیکن شریف فیملی کے لیے نیب ریفرنسز مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اب حدیبیہ پیپر مل کیس بھی کھل چکا ہے۔ جس میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے بھی نام ہیں۔ اس کیس سے اپوزیشن کی بڑی توقعات وابست ہیں۔ شیخ رشید، عمران خان، جہانگیر ترین اور پی پی پی رہنماؤں کا خیال ہے کہ یہ کیس شریف فیملی کو لے ڈوبے گا۔ دیکھتے ہیں اس کیس کی سماعت اور اختتام کے بعد کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد آئندہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ لہٰذا اگر حدیبیہ پیپر مل میں شہباز شریف کو بھی سزا ہو جاتی ہے تو اقتدار میں شریف فیملی کے آنے کا راستہ معدوم ہو جائے گا۔ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں مریم نواز اور کلثوم نواز کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اْس کا اِن کے سیاسی کردار پر کیا اثر پڑ سکتا ہے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم شریف فیملی کے لیے حالات کوئی زیادہ بہتر یا سازگار نہیں۔ مگر یہ بھی مسلّمہ حقیقت ہے کہ شریف فیملی کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بالآخر ووٹرز کو ہی کرنا ہے۔ پاکستان کے ووٹرز کی اکثریت جس کے ساتھ ہو گی، اقتدار بھی اسی کا ہو گا۔پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے بھی انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے ”پاکستان عوامی اتحاد“ کے نام سے گرینڈ الائنس قائم کر لیا ہے۔ جس کے وہ خود چیئرمین ہیں۔ بظاہر تو پرویز مشرف کی کوئی سیاسی ساکھ یا حیثیت نہیں لیکن انتخابی شوق سے کسی کو نہیں روکا جا سکتا۔ ان کی جماعت پچھلے انتخابات میں بھی پٹی تھی اور اب بھی یہی امید ہے کہ آئندہ الیکشن میں ان کا اتحاد نہ صرف پٹے گا بلکہ ان کے امیدواروں کی ضمانتیں بھی ضبط ہوں گی۔اس وقت پاکستان کی سیاست میں جو ہلچل ہے۔ اس کا اندازہ اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن خدا خیر کرے کہ کوئی برے حالات پیدا نہ ہوں۔ آیندہ آنے والے انتخابی عمل اچھے اور شفاف طریقے سے مکمل ہو جائے۔ پی ٹی آئی نے تو اپنی عوامی رابطہ مہم ابھی سے شروع کر رکھی ہے۔ نواز شریف بھی 20نومبر کو ایبٹ آباد سے عوامی رابطہ مہم کا ایک جلسے کے ذریعے آغاز کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی جلسوں کا آغاز کر دیا ہے۔آئندہ چند ہفتوں بعد مذہبی جماعتوں کا اتحاد بھی میدان میں اتر جائے گا اور جلسے کرے گا۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی بھی ایسا ہی ارادہ رکھتی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 2018ء کا آغاز ہوتے ہی ہر طرف انتخابات کا ماحول پیدا ہو جائے گا۔ سیاست نے سیاسی ماحول میں جو ہلچل مچائی ہے اور گرما گرمی پیدا کی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ الزامات کی فیکٹریوں سے نئے نئے الزامات تیار ہو کر نکلیں گے اور جس کے منہ میں جو آئے گا، کہے گا۔ آئندہ الیکشن اس لحاظ سے ہر ایک کے لیے ٹف ہو گا کہ اس میں بڑے مقابلے دیکھنے میں آئیں گے۔ ہر کوئی اپنی جیت کی توقع رکھتا ہے۔ لیکن جیتے گی وہی جماعت، جس کی کارکردگی اچھی ہو گی اور جس کی جماعت کے لیڈر کا سحر لوگوں پر قائم ہو گا۔ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
تجدید ایمان
-
جنرل اختر عبدالرحمن اورمعاہدہ جنیوا ۔ تاریخ کا ایک ورق
-
کاراں یا پھر اخباراں
-
ایک ہے بلا
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
بھونگ مسجد
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
مزید عنوان
Siyasat Main Bari Halchal Hai is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 November 2017 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.