سوچ بدلو تو بدلے گا یہ جہان

احساس کو مرنے مت دو. تم نہیں جانتے کہ اگلا انسان کن تکالیف سے گزر رہا ہوتا ہے. ہم کسی شخص کو اس وقت تک نہیں پرکھ سکتے جب تک جب تک خود کو اس کی جگہ رکھ کر نہ دیکھ لیں. مگر نہ جی ہم میں صبر کہاں.

پیر 27 جنوری 2020

soch badlo to badlega ye Jahan
تحریر: محمد وقاص

 جج کرنا یعنی پرکھنا. ہمارے ہاں ایک بیماری بن چکا ہے اور ایسی بیماری جس میں معاشرے کا ہر فرد مبتلا ہے اور اسے خبر بھی نہیں. ہماری اوقات بھلے ایک ٹکے کی نہ ہو ہم اگلے انسان کو ایسے پرکھتے ہیں جیسے وہ مجرم ہو اور ہم سے بڑا کوئی جج نہ ہو. میں پوچھتا ہوں کیوں ؟ کیا ہم میں کوئی عیب نہیں جو ہم خود کو چھوڑ کر دوسروں کے عیب ٹٹولنے لگ جاتے ہیں ؟ کیا ہم جس بندے کو پرکھ رہے ہیں اس کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں ؟ اور پھر یہ بھی نہیں کہ پرکھ لیا تو بس کرو یار یا اصلاح کر دو اس شخص کی تمہارا دل ہے.

(جاری ہے)

مگر نہیں! 
ہم نے تو الٹا اس کا چرچا کرنا ہوتا ہے ہم ایسے اگلے بندے کے بارے میں فیصلہ سنا دیتے ہیں جیسے ہم ہی چیف جسٹس ہوں. کیا احساس بالکل نہیں باقی ہم میں؟ کیا ہمیں یہ خیال بالکل نہیں آتا کہ ہمارے الفاظ سے سے اگلے بندے کو کن تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اور پھر ہم میں خصلت یہ ہے کہ ہم اگلے بندے کی بربادی کو انجوائے کرتے ہیں ایسے جیسے کوئی 3D مووی ہو.

کوئی مدد نہیں کرنی الٹا تمسخر اڑا دینا اس بندے کا. اور جب خود پہ کوئی مصیبت آتی ہے, کوئی امتحان آن پڑتا ہے تو ہم شکوے خدا کی زات سے یوں کرتے ہین جیسے اس زات سے کوئی غلطی ہوگئی ہو. آخر ایسا کیوں ہے؟ ہم کون ہوتے ہیں کسی کو پرکھنے والے؟ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ جیسا ہم نے دیکھا ہو یا جو سنا ہو وہ ویسا ہو ہی نہ جیسا ہم سوچ بیٹھے ہوں اس بارے میں.

ہم کیسے جان سکتے جب کہ ہمیں اس معاملے کی جڑ کا ہی پتا نہ ہو. جب تم کسی بات کا سیاق و سباق ہٹا دو تو غلط فہمیاں تو پیدا ہونگی ہی. اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس شخص کا بات کرنے کا انداز ہی ویسا ہو مگر ہم یہ بات کہاں سوچتے ہیں! ہمیں تو بس فیصلہ کرنا ہوتا جلدی سے جلدی. ہمیں تو بس بربادی دیکھنی ہوتی کسی انسان کی قطع نظر اس کے کہ کل ہم پر بھی یہ وقت آسکتا ہے.

اس بات کو سوچے بغیر کہ کل رب کے روبرو پیش بھی ہونا ہے اور وہ اپنے حقوق تو معاف کردے گا مگر اپنے بندے کو دی ہوئی تکلیف کبھی معاف نہیں کرے گا. ہم لوگ سوچتے ہی نہیں اور سوچیں بھی تو منفی سوچتے ہیں. آخر ایسا کیوں ؟ کیا تم نے قرآن پاک سے نہیں سنا کہ وہ زات کہتی ہے کہ مجھ سے ہمیشہ نیک گمان رکھو. اور وہ نیک گمان ہمیشہ مثبت سوچ سے پیدا ہوتا.
 سورت النور میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا *"اور جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں دلوں میں نیک گمان نہ کیا اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے."* ویسے بھی میرا ہر آج کے انسان سے یہ سوال ہے کہ تمہیں دوسرے انسانوں کو پرکھنے کا حق کس نے دے رکھا ہے.

یہی تو اک سوال ہے اپنے بندوں کے بارے میں جس کا حق اللہ پاک نے کسی کو نہیں دیا. یہ سوال تو اللہ پاک نے انسان سے کرنے ہیں تو تم کون ہوتے ہو یہ فیصلے کرنے والے کہ کون برا ہے اور کون اچھا. تمہارے زمے جو کام ہے وہ تم سے ہوتا نہیں. مستنصر حسین تارڈ لکھتے ہیں کہ "کبھی انسانوں سے وہ سوال نہ کرو جو رحمن نے انسان سے کرنے ہیں مثلاً تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی؟ تمہارا مذہب کیا ہے ؟وغیرہ وغیرہ بلکہ تم انسانوں سے وہ سوال کرو جو انسان کے انسان سے کرنے والے ہیں جیسے تم نے کھانا کھایا؟ تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ؟ تم تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ؟" تو خدارا اپنے اندر ٹھہراؤ پیدا کرو اور انسانوں سے پیار کر کے انسانیت واپس لاؤ.

احساس کو مرنے مت دو. تم نہیں جانتے کہ اگلا انسان کن تکالیف سے گزر رہا ہوتا ہے. ہم کسی شخص کو اس وقت تک نہیں پرکھ سکتے  جب تک خود کو اس کی جگہ رکھ کر نہ دیکھ لیں. مگر نہ جی ہم میں صبر کہاں. ہمیں اگلے بندے کو جاننے کی فرصت کہاں. 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

soch badlo to badlega ye Jahan is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 January 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.