تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ کی شرائط پر معاہدہ․․․․․․․!

وفاقی وزیر قانون کا استعفیٰ منظور، رانا ثناء اللہ کے خلاف دھرنا جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حکومت جھک گئی

بدھ 29 نومبر 2017

Tahreek Labik Ya Rasool ALLAH (S.A.W) ki Shrayat Pr Muahida
اسرار بخاری:
پوری قوم 22 روز بے یقینی کی سولی پر چڑھی رہی بالآخر عسکری قیادت کے موثر کردار کے باعث حکومت اور تحریک لبیک یارسول اللہ کے مابین معاہدہ طے پا گیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے استعفیٰ دے دیا جسے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے منظور کرلیا۔ حکومت اور تحریک لبیک یارسول اللہ کے مابین معاہدہ چھ نکات پر مشتمل ہے جس پر وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال ، وفاقی سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا ،تحریک کے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی ، سرپرست اعلیٰ پیر محمدافضل قادری مرکزی ناظم اعلیٰ محمد وحید نور اور رینجرز جنرل فیض حمید کے دستخط ہیں۔

تحریری معاہدہ کے متن یوں ہے۔ تحریک لبیک یارسول ﷺ جو کہ ایک پرامن جماعت ہے اور کسی قسم کی تشدد اور بدامنی پر یقین نہیں رکھتی ۔

(جاری ہے)

یہ جماعت ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت ﷺ میں قانونی ردوبدل کے خلاف اپنا نقطہ نظر لے کر حکومت کے پاس آئی مگر افسوس کہ اس مقدس کام کا صحیح جواب دینے کی بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا۔ 21 دنوں پر محیط اس کوشش کو اگر بات چیت کے ذریعے حل کرنا ہے تو ہمارے مندرجہ ذیل مطالبات کو پورا کیا جائے۔

ہم یقین دلاتے ہیں کہ ان شرائط پر اتفاق ہونے پر ہم نہ صرف ختم نبوت دھرنا ختم کریں گے بلکہ ملک بھر میں اپنے ساتھیوں کو پرامن رہنے کی درخواست بھی کریں گے۔
1: وفاقی وزیر قانون زاہد حامد جن کی وزارت کے ذریعے اس قانون کی ترمیم پیش کی گئی کو فوری طور پر اپنے عہدے سے برطرف کیا جائے۔ تحریک لبیک ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی فتویٰ جاری نہیں کرے گی۔


2:الحمد اللہ تحریک لبیک یارسول اللہ کے مطالبے کے مطابق حکومت پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017ء میں 7B اور 7C کو مکمل متن مع اردو حلف نامہ شامل کرلیا ہے جن اقدام کی تحریک لبیک یارسول اللہ ستائش کرتی ہے تاہم راجہ ظفر الحق صاحب کی انکوائری رپورٹ 30 دن میں منظر عام پر لائی جائے گی اور جو اشخاص بھی ذمہ دار قرار پائے گئے ان پر ملکی قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔


 3 : 6نومبر 2017ء سے دھرنا کے اختتام پذیر ہونے تک ہمارے جتنے بھی افراد ملک بھر میں گرفتار کئے گئے ہیں ایک سے تین دن تک ضابطہ کی کاروائی کے مطابق رہا کردیئے جائیں گے اور ان پر درج کئے گئے مقدمات اور نظر بندیاں ختم کردی جائیں گی۔
 4 :25 نومبر2017ء کو ہونے والے حکومتی ایکشن کے خلاف تحریک لبیک یارسول اللہ کو اعتماد میں لے کر ایک انکوائری بورڈتشکیل کیا جائے جو تمام معاملات کی چھان بین کرکے حکومت اور انتظامیہ ذمہ دار ان کے خلاف کاروائی کا تعین کرے اور 30 روز کے اندر انکوائری مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا جائے۔

5 : 5 نومبر2017ء سے دھرنا کے اختتام تک جو سرکاری وغیر سرکاری املاک کا نقصان ہوا ، اس کا تعین کرکے ازالہ وفاقی وصوبائی حکومت کرے گی۔
6 : حکومت پنجاب سے متعلقہ جن نکات پر اتفاق ہوچکا ہے، ان پر من وعن عمل کیا جائے گا۔ یہ تمام معاہدہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور ان کی نمائندہ ٹیم کی خصوصی کاوشوں کے ذریعے طے پایا جس کے لئے ہم ان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے قوم کو ایک بہت بڑے سانحے سے بچا لیا۔

معاہدہ کے آخری مرحلے پر ناخوشگوار صورتحال نے جنم لیا پیمرا نے علامہ خادم حسین رضوی کی پریس کانفرنس براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے پر پابندی عائد کردی ، انہیں اس بات کا علم ہوا تو وہ سخت برہم ہوئے اور میڈیا کے کارکنوں کو اس وقت تک دھرنے کے مقام پر روک لیا گیا جب تک ان کی پریس کانفرنس ٹی وی پر دکھا نہیں دی جاتی تاہم رینجرز کے کرنل بلال یہاں پہنچے تو میڈیا کے کارکنوں نے اس صورتحال سے انہیں آگاہ کیا جن کی مداخلت سے آدھا گھنٹہ بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔

یہ سوال اپنی جگہ کہ جب معاہدہ طے پا گیا تو پھر پریس کانفرنس کی براہ راست کوریج روک کرناخوشگوار صورتحال پیدا کرنے میں کیا مصلحت کارفرما ہے۔ شاید حکومت اس پریس کانفرنس کے بعض ایسے حصوں کو فوری طورپر منظر عام پر نہیں لانا چاہتی جس سے اس کی پوزیشن خراب ہونے کا امکان ہے۔ دھرنے ختم کرانے کے لئے پولیس اور ایف سی کے آپریشن کو چند گھنٹوں بعد ختم کرکے ناکامی کا اعتراف کرلیا گیا۔

اس کے بعد فوج کے ذریعے دھرنا ختم کرکے ناکامی کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ اس لئے غیر مناسب تھا کہ اس طرح پورے ملک میں فوج کے خلاف منفی ردعمل کا اظہار کیا جاتا جو ملکی سلامتی کے تقاضوں کے قطعاََ منافی ہے جس ملک میں فو ج اور عوام آمنے سامنے آجائیں اس ملک کی سلامتی وبقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ بالخصوص پاکستان کو درپیش صورتحال میں جب بھارت اور افغانستان کی جانب سے کھلی سازشیں بے نقاب ہوچکی ہوں، یہ دونوں ممالک پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی سرپرسرستی کررہے ہوں، کنٹرول لائن اورورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج کی فائرنگ اور گولہ باری سے بے گناہ پاکستانیوں اور آزاد کشمیر کے شہریوں کی شہادتوں اور زخمی ہونے کا سلسلہ جاری ہوبلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہوں، ایسی صورتحال میں فوج کو اپنے ملک کے اندر ہی اپنے لوگوں سے الجھا دینا دانشمندی نہیں بلکہ ملکی سلامی کے لئے خطرات میں اضافہ کے مترادف ہے۔

عسکری قیادت نے اس منصوبے کا حصہ بن کر اگرچہ بظاہر آئین کی خلاف ورزی کی ہے مگر قومی وملکی سلامتی کے نقطہ نظر سے بالکل درست فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کی بے تدبیری سے فیض آباد دھرنا احتجاج میں تبدیل ہوگیا، زندگیاں ، جذبہ تحفظ ناموس رسالتﷺ پر نچھاور ہوگئیں۔ حکومت کا مئوقف کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد مظاہرین کے خلاف آپریشن کا باعث بنا بظاہر یہ صورت حکومت کے لئے آگے کھائی پیچھے کنواں والی بن گئی تھی کہ دھرنا ختم نہ کرانے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے حکومت یاوزیر داخلہ کو توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا ، اور نہ ختم کرانے کی صورت میں راولپنڈی اسلام آباد کے لاکھوں شہریوں کی جانب سے شدید دباؤ، حکومت کے اس موقف سے تو اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ عدالتی حکم نے اسے آپریشن پر مجبور کیا عدالتی احکامات کی پابندی یقینا سو فیصدہونی چاہیے خواہ اس کا حکم کسی عام شہری ، ادارے، محکمے اور حکومت کو دیا جائے لیکن اس افسوس ناک حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس تعمیل ارشاد میں بدتدبیری اور بدسلیقگی کا مظاہرہ کیا گیا اور اس حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا۔

کہ اس آپریشن کا ملک گیر ردعمل یقنی ہے، دلوں میں اضطراب کا جوار بھاٹا مولوی خادم حسین رضوی یا مظاہرین کی محبت میں نہیں بلکہ شان رسالت کے تحفظ کے لئے طوفان بن اٹھنا فطری امر ہے۔ کیونکہ بے عمل سے بے عمل اور محض نام کا مسلمان بھی ناموسِ رسالت ﷺ پر جان قربان کرنے کے لئے ہروقت تیار نظر آئے گا۔ مگر سمجھے گا” حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“ آپریشن جس انداز سے کیاگیا اس سے بادی النظر میں اوّل تو بوکھلاہٹ نظر آتی ہے حکومتی سطح پر متوقع ردعمل کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکا اور اس وجہ سے کسی باقاعدہ اور موثر منصوبہ بندی یانتیجہ خیز حکمت عملی کے بغیر نہایت بھونڈے انداز سے آپریشن شروع کردیا گیا۔

وزیر داخلہ احسن اقبال جو عام زندگی میں نہایت دھیما مزاج رکھتے ہیں اچانک ”مولا جٹ“ کی طرح بڑھکیں مارتے نظر آئے اس سے بھی اشتعال نے جنم لیا جبکہ حکومت کے مخالفین کا موقف یا الزام ہے کہ حکومت نے نہایت تدبیر کے ساتھ بے تدبیری کا مظاہرہ کیا۔ ایک تو یہ کہ سارا ملبہ عدالت پر گرے دوسرے ملک میں خلفشار اور انتشار کی مخدوش فضا پیدا ہونے سے کچھ حکومتی عہدیدار اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جن حالات کا شکار ہیں ان سے بچ نکلنے کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔

اسے بہرحال محض الزام قرار دیکر نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے یاغیر اہم سمجھا جاسکتا ہے مگر حکومت کی جانب سے بے تدبیری سے لاکھوں کوشش وخواہش کے باوجود انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ شدید حکومتی بزرجمہروں نے یہ سمجھا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے طویل دھرنے حکومت کا بال بیکانہ کرسکے۔ فیض آباد دھرنے والے چند ہزار کیا کرلیں گے مگر وہ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ عمران خان کا دھرنا سیاسی رنگ لئے ہوئے تھا لہٰذا اس کی سیاست سے اتفاق کرنے والے ہی اس کے حامی تھے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کا دھرنا اگرچہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونے والے کے نام پرتھا مگر یہ سیاست کی آمیزش سے پاک نہیں تھا پھر ان دونوں کی بہت بڑی سیاسی و افرادی قوت سمٹ کر دھرنوں میں جمع ہوگئی تھی اول تو ان کے خلاف آپریشن نہیں ہوا دوسرے آرمی پبلک سکول کا واقعہ ان کے خاتمے کا خود بخود سبب بن گیا۔ اس کے برعکس فیض آباد دھرنے کے قائدین اور شرکا سے کسی کو ہمدردی ہو یا نہ ہو ، کوئی ان کے لئے کھڑا ہونا تو درکنار ان کی حمایت میں ایک لفظ نکالنے کا رواداد نہ ہولیکن وہ جس مقصد کو بنیاد بنا کر دھرنے پربیٹھے تھے اس مقصد کی حمایت کے لئے اپیل یا ترغیب کی ضرورت نہیں ہے اس حوالے سے مولانا ظفر علی خان نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان کے جذبات کا اظہار اس ایک شعر میں کردیا” نہ جب تک مروں”خواجہ بطحا کی حرمت پر، خداشاہد ہے کہ کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا“حکومت کے بھونڈے پن کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ انتہائی احمقانہ فیصلہ تھا کہ آپریشن کے لئے صبح آٹھ بجے کا وقت چنا گیا۔

تیسرا احمقانہ قدم یہ کہ الیکٹرانک میڈیا پر پابندی لگادی گئی مگر موبائل فون اور پی ٹی وی سروس بحال رکھی گئی جس کے ذریعے خبریں پھیلنے یا پھیلانے کی راہ ہموارہوئی ایک دوسرے شہروں سے جو اطلاعات فراہم کی جاتی رہیں ان میں مبالغہ آمیزی کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ماہرین کے مطابق چاہئے یہ تھا کہ آپریشن رات گئے شروع کیا جاتا سڑکیں خالی ہوتیں لوگوں کی بہت بڑی تعداد سو رہی ہوتی اور دھرنے والوں کوفوری افرادی قوت نہ مل سکتی صبح جب یہ اطلاع ملتی کہ آپریشن کے ذریعے دھرنا ختم اورہنما گرفتار اور شرکا منشتر کردیئے گئے اگر چہ ردعمل ہوتا مگر اتنا شدید نہ ہوتا وزیر قانون کو فوری فارغ کرکے بلکہ ان کی جانب سے از خود استعفیٰ کا اعلان کروا کر مشتعل جذبات کو کافی نیچے لایا جاسکتا تھا اور پھر ذمہ داروں کا تعین راجہ ظفر الحق رپورٹ کی اشاعت کے مطالبے کے حوالے سے درمیانی راستہ نکالنے کے لئے پیرامین الحسنات، پیرصاحب گولڑہ شریف اور دیگر مشائخ عظام کی مدد حاصل کی جاسکتی تھی لیکن اس احتجاج کے دوران مظاہرین کی ہلاکتوں نے اب دھرنے والوں کے لئے پیچھے ہٹنا مشکل بنادیا اور ان خونیں واقعات کے بعد حکومت کا شدید دباؤ کا شکار ہونا لازمی امر ہے اور اس دباؤ کے نتیجے میں اگر وزیر قانون سمیت دیگر حکومتی عہدیداروں کو ان کے منصب سے ہٹایا گیا تو کوئی پاگل ہی دانشمندی قرار دے گا۔

اتوار کے روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت پنجاب ہاؤس میں اعلیٰ سطح اجلاس ہوا جس میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی شرکت کی اس اجلاس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں شرکت کے لئے جنرل قمر باجوہ دبئی کا دورہ مختصر کرکے اسلام آباد پہنچے تھے۔ عسکری قیادت نے واضح کیا کہ فوج اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائے گی۔

تاہم پنجاب رینجرز کو دھرنے کا کنڑول دے دیا گیا جس کے بعد معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ آرمی چیف کے نمائندے میجر جنرل فیض حمید کی وساطت سے طے پایا اور انہوں نے بھی دستاویز پر دستخط کئے اسلام آباد انتطامیہ کی جانب سے دھرنے کے باعث بند سڑکیں کھولی جارہی ہیں جبکہ آئی ایٹ سیکٹر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بھی بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔

اس سے قبل ذرائع نے بتایا تھا کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے رضا کارانہ طور پر اپنا استعفیٰ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پیش کردیا ہے ۔ اعلیٰ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم کی جانب سے یہ استعفیٰ منظور کرلیا جائے گا ۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز زاہد حامد نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ایک گھنٹہ طویل اہم ملاقات کی تھی ۔ اسلام آباد میں گزشتہ کئی روز سے جاری دھرنے کے مظاہرین کا ابتدائی مطالبہ وزیر قانون زاہد حامد کو عہدے سے ہٹا نا ہی تھا ۔

ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں ہونے والی تبدیلی کاذمہ داردھرنا مظاہرین وزیر قانون زاہد حامد اور حکومت کو ٹھہرارہے ہیں اور 22 روز قبل اس معاملے پر فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا شروع کیا گیا تھا۔ حکومت نے مختلف حلقوں کی جانب سے آنے والے دباؤ کے پیش نظر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ختم نبوت کے حلف نامے کا اصل حالت میں بحال کردیاتھالیکن دھرنا مظاہرین وزیرقانون زاہد حامدکے استعفے کے مطالبے پر بضدر ہے۔

حکومت نے وزیر قانون کے استعفے کے مطالبے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی تاہم مذاکرات کے تمام ادوار ناکام ہوگئے تھے اس کے بعد حکومت کی جانب سے ہفتہ 25 نومبر کو فیض آباد انٹر چینج کلیئر کرانے کے لئے پولیس اور ایف سی کے ذریعے آپریشن کا آغاز کیا گیا جس میں 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ اس آپریشن کے بعد مظاہرین مزید مشتعل ہوگئے اور ملک کے کئی دیگر شہروں میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ پھیل گیا۔

جس کے بعد حکومت نے آپریشن معطل کردیا اور وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی تازہ ترین ملاقات میں معاملہ افہام وتفہیم سے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ فیض آباد دھرنے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اندرونی طور پرٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی تھی مشتعل افراد نے سیالکوٹ میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد، فیصل آباد میں صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ ، لاہور میں صوبائی وزیر بلال یاسین اور سیالکوٹ میں صوبائی وزیر بلدیات منشا بٹ کے گھروں پر حملے کئے ، توڑ پھوڑ کی جبکہ وفاقی وزیر دفاع خرم دستگیر نے جو پیر کے روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں تھے، کہا کہ گوجرانوالہ میں ان کے گھروں کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔

شیخوپورہ میں (ن) کے ایم این اے جاوید لطیف کو مشتعل افراد نے زخمی کردیاقوی امکان ہے یہ سطور شائع ہونے تک رانا ثناء اللہ بھی استعفیٰ دے دیں گے۔ جبکہ سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم ، پنجاب اسمبلی کے رکن حمید الدین سیالوی، وہاڑی کے ایم این اے طاہر اقبال چودھری نے (ن)لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ایم این اے اکرم شیخ ، غلام محمد لالی، حامد حمید، ذوالفقار بھٹی جبکہ ارکان پنجاب اسمبلی وارث کلو، محمد خان بلوچ، مولانا رحمت، عبدالرزاق ڈھلوں اور رانا منور غوث نے اپنے استعفے حمیدالدین سیالوی کو پیش کردیئے ہیں۔

اسی طرح جنگ سے ارکان اسمبلی غلام بی بی بھروانہ، خوشاب سے کرم الہی بندیال ، منڈی بہاؤالدین سے شفقت محمود بھی کسی وقت استعفے کا اعلان کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ دھرنے کے بحران پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد حکومت کی درخواست پر رینجرز کا کنٹرول سنبھالنا، وزرا کے گھروں پر حملوں، ارکان اسمبلی کی جانب سے استعفوں کے اعلانات اور کراچی سے پشاور تک لوگوں کا حکومت کے خلاف سڑکوں پر آجانا یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت اپنی ساکھ اور مینڈیٹ کھوچکی ہے اس لئے ملک میں سیاسی عمل برقرار رکھنے کے لئے نیا مینڈیٹ لینا ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Tahreek Labik Ya Rasool ALLAH (S.A.W) ki Shrayat Pr Muahida is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 November 2017 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.