یوں بنی زندگی تماشا!

زندگی ایک تماشا ہی ہے۔زندگی تماشا بنتی ہے اور تماشبین اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ جس نے آواز اُٹھائی مٹ گیا!!

پیر 27 جنوری 2020

yun bani zindagi tamasha !
تحریر:کرن صمد

سوچ،نظریہ،فکر،ادب و آداب،اخلاق اور کردار کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اگر ان میں بگاڑ پیدا ہوا تو معاشرہ اپنے بھیانک انجام کو پہنچا اور اگر ان کی پاسداری کی تو معاشرہ پروان چڑ ھا۔ کہا جاتا ہے کہ تربیت خواہ مذہبی ہو،روحانی ہو یا معاشرتی کسی بھی عام سے انسان کو ولی, بزرگ, یا پھر معاشرے کا ایک اہم رکن بنا سکتی ہے۔

اور اگر اسی تربیت نے اپنا رُخ موڑا تو تباہی و بربادی معاشرے کا مقدر ٹھری۔ کیونکہ فرد ایک اکائی ہے اور معاشرہ افراد کا مجموعہ ہے۔ یوں اگر ایک فرد کی سوچ بگڑی تو گویا اس سے تربیت پانے والے ہر شخص کی سوچ میں کھوٹ پیدا ہوا اور معاشرہ اپنی بد ترین صورت اختیار کر گیا۔

(جاری ہے)

 

اُجڑرتے گھرانے،بکھرتے وجود۔۔۔ کیا یہی ہے اس معاشرے کا نیا روپ! کبھی کہیں کوئی7 سالہ زینب مرجھائی تو کبھی 6 سالہ عوض نور! جرم محض حصول علم! کیا علم کی یہی سزا ہے ان بیٹیوں کے لیے جو نکلی تو گھروں سے مدرسے کے لیے تھیں مگر مٹی ان کا مسکن ٹھری۔

کبھی قصور کے بچے بکھر رہے ہیں تو کبھی کوئی ننھی جان کچرے کے ڈھیر میں آخری سانسیں گنتی نظر آ رہی ہے۔وحشت کا یہ سلسلہ سرحر پار تو اپنی تمام حدود توڑ گیا جب ایک نو ماہ کی بچی کو نا بخشا گیا۔
ایک تخلیق کار جب معاشرتی رویوں کی جانچ پڑتال کرتا ہے تو معاشرے میں ہونے والے حالات و واقعات،ظلم و ستم کو جب اپنے زاویے سے دیکھتا ہے کہ معاشرے نے ظلم و ستم کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے تو وہ اپنے ڈگمگا تے قلم سے،اپنی خون سینچتی آنکھوں سے،اپنے لہو کی سیاہی سے، جب الفاظ کی شکل میں حقیقت پر مبنی کچھ کہانیاں تشکیل دیتا ہے تو معاشرے میں اس کی کہانی کے نظر انداز ہونے اس پر بر ملا تنقید ہونے کا خوف اسے پل پل کھا ئی جاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم ”زندگی تماشا“ کے ساتھ ہوا۔ بڑے پردے پر جب سرمد نے اس معاشرے کی جھوٹی،کھوکھلی شکل معصوم زندگیوں کو بچانے کے لیے دکھانے کی کوشش کی تو مذہب کی آڑ میں کچھ لوگوں کی جانب سے قتل کی دھمکیاں موصول ہونے لگیں۔ حتی کہ سینسر بورڈ نے فلم کی نمائش و تشہیر پر پابندی لگا دی اور اسکی اسکریننگ اسلامی نظریاتی قونسل کی اجازت سے مشروط کر دی۔ یوں زندگی ایک تماشا ہی ہے۔زندگی تماشا بنتی ہے اور تماشبین اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ جس نے آواز اُٹھائی مٹ گیا!! حکومت کو چاہیے کہ ایسی فلمیں جن میں معاشرتی آگہی کا پہلو ہو انہیں ہر چھوٹے بڑے سینما میں نما ئش کی اجازت دی جائے۔تاکہ مزید کوئی کلی نہ مرجھانہ پائے اور مزید زندگیوں کو تماشا بننے سے روکا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

متعلقہ عنوان :

yun bani zindagi tamasha ! is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 January 2020 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.