ذمہ دار کون؟

20سال گزرنے والے ہیں لیکن معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تسلسل نہ رک سکا اب جب بھی کوئی ایسا المناک واقع رونما ہوتا ہے تو خونخوار درندے جاوید اور اس کے ساتھی ساجد کی باتیں ذہن میں آجاتی ہیں

Mian Mohammad Husnain Kamyana میاں محمد حسنین فاروق کمیانہ پیر 16 دسمبر 2019

zimma daar kon?
20سال پہلے ایک شخص ڈی۔آئی۔جی،لاہور کے آفس میں گیا اور وہا ں جا کر اس بات کا دعوی کیا کہ میں نے بہت سے بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا ہے پولیس حکام سمجھے کہ شائد اس شخص کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں جو ایسی باتیں کررہا ہے روائتی زبان استعمال کرتے ہوئے اُسے ڈانٹ کر دفتر سے باہر نکال دیا اس کے بعد یہ شخص اپنے گھر گیا ایک طویل خط لکھا اور نجی اخبار کے مدیر کے دفتر والے ایڈریس پر اسے ارسال کر دیا۔

اس خط میں درندہ صفت انسان شائد اس پر انسانیت بھی شرما گئی ہو جس میں اس نے معصوم بچوں کے ساتھ ظلم و بربریت،زیادتی کے بعد قتل کرنے کا اعتراف کیا اور اس کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے اس خط کے ساتھ تقریباً 100 بچوں کی تصویریں بھی ارسال کی جنھیں یہ بھیڑیانما شخص زیادتی کے بعد قتل کر چکا تھا ۔

(جاری ہے)


 نجی اخبار کے ایڈیٹرنے اپنے ذرائع سے اس بات کی تصدیق کروائی جو اس نے خط میں رقم کی تھیں اور نومبر کے آخری ہفتے 100بچوں کا قاتل جاوید اقبال کی دل دہلادینے والی داستان اخبار میں چھپی تو پورے ملک میں کہرام مچ گیا ہر طرف چیخوں پکار کی آوازیں تب جا کے پولیس حکام کی آنکھیں کھولی اور انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ ہمارے ہاتھوں سے کتنا بڑاقتل بچ کر نکل گیا اب اس کو پکڑنے میں ہی انھوں نے عافیت سمجھی اور شہر بھر کی ناکہ بندی کر کے مکرو چہرہ جاوید اقبال کی تلاش شروع کردی اور اس کو پکڑنے کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے ۔

اس دوران جن والدین کے لخت جگر گم شدہ تھے ان کے گھر تو جیسے صف ماتم بیچھ گیا ہو اور اسی عالم میں وہ تھانہ راوی جاتے اور اپنے پیاروں کی تصویریں پہچانتے۔ ان کی آنکھوں میں بے بسی صاف عیاں تھی دوسری طرف حکومت اور محکمہ پولیس پر روزبروز عوامی دباوٴ بڑھ رہاتھا کیونکہ اب تو ہر اخباراورہر نیوز چینل کی یہ خبرزینت بنی ہوئی تھی ۔چند روز بعد سوہاواسے دو لڑکے پکڑے گئے جن کے بارے میں پولیس حکام کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ جاوید کے قریبی ساتھی ہیں اور اس کے تمام جرائم میں سہولت کار تھے۔

 CiAپولیس نے ان سے تفتیش کی اور ان میں سے ایک اسحاق عرف بلا دوران انوسٹی گیشن پر اسرار طور پربقول CiAاس نے فرار ہونے کی کوشش کی اور تیسری منزل سے چھلانگ لگادی جس کی وجہ سے ہلاک ہو گیااو رتقریباً ایک ماہ بعد شیطان صفت جاویدبھی پکڑلیاگیا اسکی تلاشی لی گئی تواس کی جیب سے زہر کی ایک بوتل نکلی شائد اس نے خودکشی کے لئے رکھا ہوا تھا۔

 دوران تفتیش اس نے اپنے تمام تر جرائم کا اعتراف کر لیا اوراس کے بعد اسے جائے وقوعہ راوی روڑ کے ایک مکان پرلیجایا گیا جو اس نے قتل گاہ بنائی ہوئی تھی پولیس جب اس قتل گاہ میں داخل ہوئی تو دل دھلادینے والے انکشافات سامنے آئے بچوں کے فوٹو تھے، کپڑے تھے، جوتے تھے، تیزاب سے بھرا ڈرم تھا، دیوار پر خون کے چھینٹے تھے، اوروہ زنجیر یں بھی تھیں ۔

اس نے بتایا کہ وہ داتا دربار اورایسے ہی مکامات پر گھر سے بھاگے ہو ئے بچوں سے دوستی کرتا اور انھیں بہلا پھسلا کر (قتل گاہ) راوی روڑ والے مکان پر لے کر آتاتھا ان کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد زنجیر وں سے ان کا گلا گھونٹ کر مار ڈالتا ،پھر تیزاب والے ڈرم میں ان کے اعضاء ڈال کر گلا دیتااور بعد میں ان کی باقیات کو دریا میں بہادیتا تھا ۔
اس واقع نے تو سب کو ہلا کر رکھا دیابہت سے واقعات شائد تاریخ کی دھول میں دب جائے ۔

لیکن جن پر گزر رہی ہو ،ان کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کیا ہوتی ہے۔ فروری 2000میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی جس کے لیے دونوں ملزمان جاوید اور اس کا ساتھی ساجد کو عدالت میں پیش کیا گیااور وہاں پر جاویداقبال بارباربیان بدلتا رہا کبھی کہتا کہ تمام بچے زندہ ہے توکبھی کہتاکہ اس نے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا بد لہ لے لیا ہے جب ان پر فرد جرم عائد کی گئی تو انہوں نے الزامات کا اعتراف کرلیا۔

 16مارچ کو عدالت نے اسے 100بار سزائے موت کا حکم سنایا جج صاحب نے واضع طور پر فیصلے میں لکھا کہ دونوں ملزمان کو بچوں کے والدین کے سامنے اسی زنجیروں سے بھانسی دی جا ئے جس سے وہ بچوں کا گلا گھونٹا تھا اس کے بعد دونوں ملزمان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے تیزاب کے ڈرم میں ڈالے جائے جاوید اقبال نے سزا کے خلاف اپیل کی لیکن اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

 9اکتوبر 2001کو جاوید اوراس کا ساتھی ساجد لاہور کوٹ لکھ پت جیل میں مردا پائے گئے دونوں الگ الگ کمروں میں بند تھے ان کا ایک ساتھ خود کشی کرنا ایک معمہ تھا جیل حکام نے بتایا کہ دونوں نے بستر کی چادروں کا پھنڈا بنا کر خود کشی کر لی ہے۔
20سال گزرنے والے ہیں لیکن معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تسلسل نہ رک سکا اب جب بھی کوئی ایسا المناک واقع رونما ہوتا ہے تو خونخوار درندے جاوید اور اس کے ساتھی ساجد کی باتیں ذہن میں آجاتی ہیں او ر رقم الحروف کے دل میں ایک عجیب سا خوف رہتا ہے کہ کہیں یہ درندہ بھی انہی درندوں جیسا نہ ہو جنہوں نے 100 انتہائی معصوم اور خوبصورت کلیوں کو اپنی حوس کا نشانہ بنا کر مار ڈالا بچے روزانہ کی بنیادوں پر انسانی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں کیا ان بچوں پر پہرے بٹھانے کے علاوہ بھی کوئی اور حل سوچا گیا جس سے بچوں کو درندگی سے بچایا جا سکے ۔

کیا شیطانی نجس نگاوٴں اور ناپاک ہاتھوں سے انھیں محفوظ کر لیاگیا ۔ کیا اس ظلم وبربریت کو روکنے کا کوئی امکان نہیں،کیا ہر طرف ایسے ہی خوف رہے گا ، اپنوں کے بچھڑنے کا خوف،درندوں کی درندگی کا خوف،حیوانوں کی حیوانیت کا خوف ،انسان نما بھیڑیوں کا خوف ، شیطان کے پیرو کار کی شیطانیات کا خوف،اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کیاچار ،پانچ مجرموں کو پھانسی دینے سے ہمارا فرض ادا ہو گیا ہمیں مان لینا چاہے کہ جن معاشروں میں بچے تک محفوظ نا ہوں وہ معاشر ے بیمار معاشروں میں ڈھل چکے ہوتے ہیں ہم مذہبی قوم ہیں اور مذہبیت پر یقین کامل ہے لیکن کتنی دل فگار حقیقت ہے کہ مدرسوں اور گھروں میں دینی تعلیم اور قرآن پاک پڑھانے والے بعض ،حافظ،قاری ومولوی، معلم،بچو ں کے ساتھ جنسی درندگی کرتے پائے گئے ہیں ۔

 ہم کتنے بے ضمیر اوربے حس ہو تے جارہے ہیں کہ ہمارے اردگرد ہر روز کوئی نہ کوئی ،کسی نہ کسی گھر ہولناک و بھیانک واقعات رونماہو رہے ہیں اور ہم چشم بصیر ت سے دیکھ رہے ہیں پر ہم نے آج تک بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کے خلاف نہ تو کوئی سخت قانون بنایا نہ ہی سفاک بھیڑیوں کو پکڑنے کی کوشش کی اور نہ ہی کسی کو سر عام کوئی سزادلوائی اس کے علاوہ بچوں کے تحفظ کے حوالے سے معلومات کو نصاب میں شامل کیا جائے ، بچوں کو جسمانی صحت ، جنسی افعال، ابتدائی تعلیم اور خطرات کے بارے میں آگاہی دینا اور اس ساری صورت حال سے نبٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا،تاکہ بچے کسی قسم کے لالچ میں نہ آئیں کیونکہ زیادہ تر واقعات بچوں کے لالچ میں آنے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں ۔

تعلیمی ادارے، معاشرہ، والدین اور سر پرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔
 ہمارے میڈیا میں روزانہ کی بنیادپر گھنٹوں پروگرام ہوتے ہیں اور ان میں بحث وتکرار ہوتا ہے مگر افسوس کہ اس ظلم و بربریت کے خلاف نہیں، بلکہ چندسیاست دانوں اور ان کے کیسوں پر، کیا ہمارے پاس ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے بحث کرنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لئے کوئی ٹائم نہیں یہی وجہ ہے کہ ایسے شرم ناک واقعات روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں اس سے بڑی ظلم و زیادتی اورکیا ہو گی کہ ہم سب مل کر اس کے خلاف آوازنہیں اٹھا رہے ۔

اب نہیں تو کب ہم اس کے خلاف آواز اٹھائیں گئے تا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے اور اس میں ملوث شیطانی مکروہ چہروں کوکڑی سے کڑی سزا دلوانے کے لئے مزیدجامعہ قانون سازی کی جا سکے اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں توہم سب اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرموں کی طرح کھڑے ہوئے نظر آئیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

zimma daar kon? is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 16 December 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.