حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ

ہفتہ 24 اپریل 2021

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

10 رمضان المبارک یوم وصال حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہ، ان کا نام خدیجہ کنیت ام ہند اور نیک سیرت کی وجہ سے لقب طاہرہ ملا تھا، ان کا نسب عبد العزی بن قصی پر جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے جا ملتا تھا،حضرت خدیجہ کے والد اپنے قبیلے میں نہایت معزز شخص تھے۔ مکہ آکر اقامت کی، یہیں فاطمہ بنت زائدہ سے شادی کی، جن کے بطن سے عام الفیل سے 15 سال قبل خدیجہ پیدا ہوئیں،
حضرت خدیجہ کی پہلی شادی ابو ہالہ تمیمی کے ساتھ ہوئی اور ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے ہالہ اورہند، ابو ہالہ کے انتقال کے بعد آپ کی دوسری شادی عتیق بن عاید مخزومی سے ہوئی اور ان سے ایک بیٹی پیدا ہوئی، جس کا نام بھی ہند تھا۔

کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ نے شادی کا خیال دل سے نکال کراپنے والد کی وفات کے بعد ان کی تجارت کو سنبھالنا شروع کر دیا۔

(جاری ہے)

حضرت خدیجہ اپنا سامان تجارت مقررہ اُجرت پر دیا کرتی تھیں اور اُنہیں اس مقصد کے لیے امانت دار اور شریف النفس شخص کی تلاش تھی۔یہ وہ دور تھا جب حضرت محمدبن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت اور دیانت کا پورے عرب میں چرچا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے عرب میں ”امین اور صادق“کے لقب سے جانے جاتے تھے۔

حضرت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام پہنچایا کہ آپ میرا سامانِ تجارت شام لے جائیں تو میں آپ کو دوگنا اجر دوں گی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشکش کو قبول فرمایا اور حضرت خدیجہ کا سامان تجارت کے لیے شام لے کر گئے۔ شام کے اس تجارتی سفر میں حضرت خدیجہ کا غلام میسرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ راستے میں راہب والاواقعہ پیش آیا کہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی فرمایا:”بلاشبہ یہ نبی ہیں اور آخری نبی“۔

پھر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے خود بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے چند واقعات دیکھے‘مثلاً اس نے دیکھا کہ دھوپ میں دو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔سفر سے واپسی پر میسرہ نے سفر کی ساری روداد حضرت خدیجہ کے گوش گزار کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور امانت کا بھی ذکر کیا۔اس سے حضرت خدیجہ کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی خواہش پیدا ہو گئی۔

قریش کا جو شخص بھی نکاح کے قابل تھا وہ حضرت خدیجہ سے شادی کا خواہش مند تھا‘ لیکن آپ نے رحمۃٌ للعالمین محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی خواہش ظاہرکی اور اپنی سہیلی نفیسہ بنت اُمیہ کو شادی کا پیغام دے کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، نفسیہ سے گفتگو کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے ذکر کیا تو انہوں نے بھی رضا مندی کا اظہار کیا،  اور اس طرح نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ کبری کے نکاح کی تقریب حضرت خدیجہ کے گھر میں منعقد ہوئی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا اور چند دوسرے رشتہ داروں‘ مثلاً حضرت حمزہ کے ہمراہ وقت ِمقررہ پر ان کے گھر گئے اور وہاں حضرت خدیجہ کے رشتہ دار موجود تھے، جن میں عمرو بن اسد اورورقہ بن نوفل قابل ِذکر ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب نے عرب کے روا ج کے مطابق نکاح کا خطبہ پڑھا اور بعض تاریخی روایات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت خدیجہ کی طرف سے ورقہ بن نوفل نے جوابی کلمات کہے …۔

شادی کے وقت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر25 سال اور حضرت خدیجہ کی 40 سال تھی،
ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی زندگی مسلم خواتین کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں، آپؓ نے صرف نبوت کی تصدیق نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں نبی کریم کی معین ومددگار بھی ثابت ہوئیں۔آپؓ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا۔آپؓ ناصرف نبی کریم کی ہم خیال اور غمگسار تھیں بلکہ ہرقدم پران کی مددکیلئے بھی تیار رہتی تھیں، آپؓ خاندان قریش کی ممتاز اور باوقار خاتون تھیں  دعوت اسلام کے سلسلے میں جب مشرکین مکہ نے آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دیں تو آپؓ انہیں تسلی وتشفی دیتیں، ام المو منین حضرت خدیجتہ الکبریؓ نبی اکرمﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی اور دین اسلام کی تصدیق کرنے والی تھیں۔

آپکو حضور ﷺکی پہلی زوجہ ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے۔ غریب پروری اور سخاوت حضرت سیدہ خدیجہ ؓ کی امتیازی خصوصیات تھیں، حضرت خدیجہ ؓجب تک حیات رہیں آپکی موجود گی میں آپﷺ نے کسی خاتون سے نکاح نہیں کیا،سیدہ خدیجہ نے حضور اکرمﷺ سے والہانہ محبت کی، آپﷺ کیلئے راحت و آرام کے تمام اسباب مہیا کئے۔ خوشحالی کے تمام تر پہلو آپ پر نچھاور کئے۔

رسول اللہﷺ کی پسند حضرت سیدہ خدیجہ ؓ کی پسند تھی۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جب لوگوں نے میری تکذیب کی انہوں نے میری تصدیق کی جب لوگوں نے مجھے بے سہاراکرنا چاہاانہوں نے مجھے سہارادیااور میری مددکی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت خدیجہ کے ساتھ ازدواجی زندگی امت کے لیے رول ماڈل کی حیثیت ہے امت کو اس میں سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ کیسے ایک مکمل زندگی گزاری جا سکتی ہے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیسے محبت اور وفا کے زندگی گزاری،آپ ایک خدمت گزار اور وفا شعار بیوی ثابت ہوئیں۔

آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری ضرورتوں اور آرام کا خاص خیال رکھا اور آپ نے اپنا سارا مال و دولت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا۔حضرت خدیجہ جب تک زندہ رہیں آپ نے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب غار حرا میں غور و فکر کے لیے جاتے تو آپ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا لے کر جاتیں، حالاں کہ غار حرا مکہ کی آبادی سے دو تین میل کے فاصلے پر ہے اور اس کی چڑھائی بھی کافی مشکل ہے‘لیکن آپ نے یہ سب کام بہ خوشی کیے،سیماب اکبر آباد ی نے حضرت خدیجہ کی خدمت گزاری اور وفا شعاری کے حوالے سے لکھا ہے کہ:”حضرت خدیجہ حسین بھی تھیں‘دولت مند بھی تھیں‘شریف النسل بھی تھیں‘شریف الخیال بھی تھیں اور سب سے زیادہ جو فضیلت ان میں تھی وہ یہ ہے کہ اپنے شوہر کی بے حد اطاعت گزار تھیں،  حضرت خدیجہ کی اسلام کے بارے میں بہت خدمات ہیں،جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور طرح طرح کے مظالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈھائے گئے۔

ایسے مواقع پر حضرت خدیجہ کی تسلی اور حوصلہ مرہم کا کام دیتا تھا۔ا س کے علاوہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی تردید اور تکذیب سے جو صدمہ پہنچتا وہ حضرت خدیجہ کے پاس آکر دور ہوجاتا، کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتیں‘ حوصلہ افزائی کرتیں اور مشرکین عرب کی بدسلوکیوں کو ہلکا کرکے پیش کرتی تھیں۔اس حوالے سے اُ ن کا یہ قول تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔

وہ فرماتیں:”یا رسول اللہ!آپ رنجیدہ نہ ہوں‘بھلا کوئی ایسا رسول آج تک آیا ہے جس سے لوگوں نے تمسخر نہ کیا ہو۔“،
حضرت خدیجہ کی وفات اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت بڑا سانحہ تھی  حضرت خدیجہ نبوت کے دسویں سال اس فانی دنیا سے کوچ کر گئیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی جدائی کاحد درجہ افسوس اور دکھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال کو ”غم کا سال“قرار دیا، اس لیے کہ اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو قابل قدر ہستیاں اس دنیا سے کوچ کرگئیں:ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست چچا ابوطالب اور دوسری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت گزار اور وفاشعار بیوی حضرت خدیجہ کبری، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اپنی ردا اور پھر جنتی ردا میں کفن دیا اور مکہ کے بالائی حصے میں واقع پہاڑی کوہ حجون کے دامن میں، مقبرہ معلیٰ یا جنت المعلیٰ میں سپرد خاک کیا۔

یوں دنیا کی تمام عورتوں کے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھنے والی ام المومنین حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کا اختتام ہوا، انہوں نے اپنی مکمل زندگی میں دنیا کی تمام عورتوں کو وہ چیزیں بتائیں جں پر چلتے ہوئے ہر عورت سکون سے رہ سکتی ہے، کاروبار بھی کیا نکاح بھی کیا نکاح کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برتاؤ بھی ایسا کہ دنیا حیران کہ عمر کے اتنے فرق کے باوجود اتنی محبت اور عقیدت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات پر آمین کہنے والی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عورتوں میں سب سے پہلے ایمان والی اور پہلی ام المومنین نے قیامت تک کی عورتوں کو اپنی عملی زندگی میں پیغام دیا کہ اسلام کی راہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کو اس طرح سے خوشحال رکھا جا سکتا ہے،
لیکن افسوس آج امت مسلمہ کی خواتین کس رستے پر چل رہی ہیں یہ آزادی کے نام پر باہر نکلنا چاہتی ہیں یہ مردوں کے برابر حقوق طلب کرتی ہیں یہ بے حیائی کا لباس پہن پر عزت طلب کرتی ہیں یہ مردوں کے برابر کام کر کے خود کو ممتاز ثابت کرنا چاہتی ہیں، یہ تو اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں اسلام تو عورت کو عزت سے گھر رہنے کا حکم دیتا ہے عورت کو جتنی عزت و احترام ہمارے دین اسلام نے دی ہے دنیا کے کسی مذہب میں نہیں ہے کہ عورت اگر ماں کے روپ میں ہے اس کے قدموں تلے جنت ہے، بہن ہے تو اس کی حفاظت کرنے والا ایک محافظ بھائی ہے، اگر بیوی کی شکل میں ہے تو محبت اور احترام کرنے والا شوہر ہے یہ عورت کا مقام ہے اگر یہ مقام خواتین پہچان جائیں تو ان کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہو اور ایسا تب ہو گا جب خواتین امہات المومنین کی سیرت پڑھیں گی ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی اور پھر دیکھیں گی کہ اسلام نے عورت کو کیا عزت اور مقام عطاء فرمایا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :