سب کی نگاہیں پیمرا پر۔ قسط نمبر1

جمعرات 1 مئی 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

سب کی نگاہیں پیمر ا پر، لیکن پیمراہ کی نگاہیں کس پر ؟ عدل و انصاف پر یا ترقی کے زینے فراہم کرنے والوں پر ، یاد رہے کہ اداروں کی ساکھ عد ل و انصاف سے قائم ہوتی ہے اور عدل و انصاف وہ لوگ کرتے ہیں جو کسی کی سفارش کے بغیر، اپنی محنت اور اہلیت سے کو سیڑھی بنا کر آگے آئے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔
حامد میر پر قاتلانہ حملے اور اُس حملے نے ہمارے سیاسی و غیر سیاسی ماحول اور میڈیا پر جو اثرات مرتب کئے ہیں، اب اس پر مزید کچھ لکھنا سانپ کی لکیر پیٹنے والی بات ہے۔

لیکن چونکہ کچھ لوگ تاریخ ساز رِگنگ کی مدد سے چرائی ہوئی اپنی جمہوری طاقت کے زُعم میں، اپنے قومی ادارے افواج پاکستان سے پرانے حسا ب چکانے کی ضد کر بیٹھے ہیں اور یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں کہ فوج کے ایک انتہائی حساس اور ہر لہاز سے قابل فخر ادارے کے سربراہ جنرل ظہیر السلام اور اُن کے ادارے کی ساکھ کے خلاف کوئی مجرمانہ کھلواڑ ہوا ہے ۔

(جاری ہے)


اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے میں اس بات کا بہ بانگ دُہل اعلان کر نا چاہتا ہوں کہ جن چند جرنیلوں نے آئین شکنی کا شرمناک مظاہرہ کیا ہے، میں اُن میں سے کسی کا بھی حامی نہیں ہوں،لیکن ذرا یہ بھی تو سوچیں کہ جنرل محمد ایوب خان( مرحوم ) اُس وقت آئے تھے، جب ہمارے ہاں اقتدار کی لڑائیوں کا یہ عالم تھا کہ ایک مقام پر پنڈ ت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا۔


” میں کشمیر کے مسئلے پر کس سے بات کروں ؟ میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا ، جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدل لئے جاتے ہیں “ پنڈت جی کا جملہ من و عن یاد نہیں رہا۔لیکن ان کی بات کا متن سو فیصد یہی تھا ۔اس کے علاوہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے جتنی ترقی کی ہے، ایوب خان کے بعدپاکستان نے اتنی ترقی کسی جمہوری دور میں کی ہو تو مجھے بتا کر میری معلومات میں اضافہ کریں۔


جنرل محمد یحی ٰ خان، ،محمد ایوب خان (مرحوم ) کی آئین شکنی میں حصے دار بن گئے تھے۔یعنی ایوب خان مرحوم نے اپنا اقتدار ان کے حوالے کردیا تھا۔لیکن ان کا الیکشن شفافیت کے اعتبار سے پاکستان کے الیکشنز میں ایک یاد گار الیکشن کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔کاش آج بھی کوئی جرنیل آگے بڑھ کر احتساب بیورو پر قبضہ کر کے سب سیاست دانوں کو 62/63کی کسوٹی پر پر کھتے ہوئے جنرل محمد یحیٰ خان جیسے صاف شفاف الیکشن کروا کر لٹتے ہوئے پاکستان کو بچا لے۔

پاکستان پر فوج کے اس احسان سے ،فوج کے دامن پر لگے ہوئے سارے داغ دُھل جائیں گے۔اِس لئے کہ پاکستان میں مزید لٹنے کی سکت نہیں رہی ہے۔خدا کے واسطے آگے بڑھ کر پاکستان کو بچا لیں۔پہلے منصفانہ طریقے سے62/63پر عملداری اور بعد میں صاف شفاف الیکشن۔۔جو بھی یہ کام کرے گاوہ انشا اللہ ! پاکستان کی تاریخ میں قائد اعظم  کی طرح ہمیشہ زندہ و تا بندہ رہے گا
جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء نے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور کم از کم میں اُن کے دور کو دُور ِ سیاہ الحق کہتا ہوں۔

اُس سیاہ الحق بد بخت کے دور نے پاکستان کو کلاشکوف اور ڈرگ زدہ معاشرہ دیا ہے ۔ اُسی کے دور میں کرپشن بد مست اور بے مہار اونٹ بنی ہے۔ اس نے امریکہ کے اشارے پر ایک ایسے لیڈر کا عدالتی قتل کیا ہے جو اپنی ان گنت ذاتی برائیوں کے ساتھ ساتھ ایک قائدانہ ویژن رکھنے والا لیڈر تھا اور صرف پاکستان ہی کو نہیں ، مسلم اُمّہ کو دنیا کی تیسری طاقت بنانے کے خواب کی تعبیر تلاش کرنے کے راستے پر گامزن تھا۔

جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھی۔آج کچھ جھوٹے لیڈر اور صحافی یہ جھوٹ بولتے ہوئے بالکل کوئی شرم محسوس نہیں کرتے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بانے والے میاں نواز شریف ہیں۔جب کہ میاں نوا شریف نے صرفدھماکہ دکیا تھا۔پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی جس کا اعتراف خود ڈاکٹر عبدالقدیر نے ان الفاظ کے ساتھ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام مجھ سے لے لیا ہے اگر بھٹو نہ ہوتے تو میں یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔


جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں کچھ میاں برادران کی بد اعدالیوں اور آمرانہ پالیسیوں کا حصہ بھی ہے۔جس میں ایک آمرانہ غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ایک انتہائی منظم ادارے کے چیف کے ساتھ سینگ پھنسا لئے تھے اور اپنے چیف کی عزت اور وقار کے خیر خواہ جرنیلوں نے میاں نواز شریف کے اقتدار کشتی کو عین اس وقت ڈبو دیا تھا، جس وقت جنرل مشرف کسی بیرونی دورے سے واپس آ رہے تھے اور فضا میں تھے اور میاں نواز شریف اپنی آمرانہ طاقت کا مظاہرہ کرنے کی دُھن میں ان کے جہاز کو پاکستان میں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔

نتیجتاً جنرل مشرف کو ان کے ساتھیوں نے مسند اقتدار پر بیٹھا دیا۔
بس تو میاں صاحب کی آمرانہ سوچ کے نتیجے میں پاکستان کو یہ نقصان پہنچا کہ امریکہ نے پاکستان میں اپنے ہوائی اڈے بنا کر آدھے پاکستان کو فتح کر لیا ہے۔ اب امریکہ اسلام آباد میں اپنے سفارت خانے اور لاہور و کراچی میں اپنے کونسل خانوں کی تعمیر جس پیمانے پر کر رہا ہے۔ سوال ہے۔

امریکہ اُن بلڈنگز میں جو دنیا آباد کرے گا ، اس دنیا میں پاکستان کے خلاف کیسے کیسے ناپاک منصوبے پروان چڑھیں گے ؟کوئی پاکستان کا خیر خواہ ہے ؟ جو یہ سوچے ؟ جنرل مشرف کو ان کے جرائم کی سزا ضرور ملنی چاہیے ۔لیکن میاں صاحب کی پرابلم یہ ہے کہ وہ اپنے مُنہ سے نکلی بات کو قانون کا درجہ دیتے ہیں اور مشرف پر اکتوبر ۱۹۹۹ء ء سے کیس چلانے کے بجائے۔

خیر اس بحث کو چھوڑیں ، میں تو صرف یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ان چار جرنیلوں کی آئین شکنی کو جواز بنا کر ہم اپنے سب سے زیادہ منظم اور قوم و ملت کے دفاع کے زمہ دار ادارے کو کیسے بدنام کر سکتے ہیں ؟ اس طرح تو ہم آصف علی زرداری اور خود میاں برادران اور ان کے ساتھیوں نے جس بے دردی سے ملک کو لوٹا ہے ، اسے جواز بنا کر جمہوریت کو بھی رَدّ کر سکتے ہیں۔

عدلیہ کے جو ہوشربا افسانے سامنے آتے رہتے ہیں،ان کو جواز بنا کر عدلیہ کو بھی رد کر سکتے ہیں اور پولیس کے محکمے کو تو بالکل ہی ختم کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہ سب کچھ کیسے کر سکتے ہیں ؟جناب والا ! اِن اداروں میں اصلاح کی ضرورت ہے اور قومی اداروں کی اصلاح اپنے حسن کردار سے کی جاتی ہے۔لیکن جن لوگوں نے محض اپنے کردار کے تاریک گوشوں کو چھپانے کے لئے قومی اداروں کو تباہ کرنے کی ٹھان رکھی ہو۔اُن کے لئے فقط دعا ہی کی جا سکتی ہے۔( باقی آئندہ ) ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :