عظیم تر ہم بنا رہے ہیں

جمعہ 25 ستمبر 2020

Abdul Waheed Ghaffar

عبدالوحید غفار

دنیا کی کئی پرانی تہذ یبیں  کهود کر دریافت کی گئیں ہیں... بعض کو کولمبس جیسے سرپھرے گوروں نے سمندری سفر کر کے خو ا مخوا ہ ہی دریافت کیا- سنتے ہیں چونکے مغرب میں گوروں نے  ریڈ  انڈینز کو  خوب کو ٹا ... اس لیے مشرق میں انتقاما " براون  انڈینز  نے گوروں کو  لات ما ر کرنکال با ہر کیا- تاھم دنیا کا ایک ایسا  شہر  بھی ہے جسکو حال ہی میں تو فانی بارش میں گٹر اور برساتی پانی کے میلاپ کی جگہ غلاظتی تہہ اترنے کے دوران  دریافت کیا گیا ہے -کئی سو سال قبل یہاں ایک ملک خداداد کا عظیم شھر اؓباد  تھا .

..

(جاری ہے)

تا ہم عشروں کی برین ڈرین کے بعد یہ شہر اب ملک خداداد   سے باہر  تقریبا " پوری دنیا میں بھی  ہر جگہ پھیل گیا - میں چونکے پروفیشن کےلحا ظ سےآرکیا لو جسٹ ہوں لہٰذا مجھے اس پرانے شہر کی  تہذیب پر تحقیق کا موقع ملا جو قارعین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے -
محققین کہتے ہیں کے ملک خداداد کے اس شہر  میں امن و اما ن کا " دور" کا دورہ تھا -   یعنی لوگ    کئی     دہا ئیوں سے روٹی ، کپڑا اور "مچان"  کی دہا ئی دے رہے تھے .

.. مکان کے بجاے "مچان"  بوجہ ضرورت یوں کہ عر صہ دراز تک وہاں جنگل کا قانون نافذ رہا-بعض مو ر خ  لکھتے ہیں کے طو یل عر صے تک  شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ کا پانی پیتے رہے...تاھم وقت کے تھوڑے فرق کے ساتھ ،  یعنی پہلے بکری گھاس کھا کر پانی  پیتی بعد میں شیر ...بکری چبا کے-
  شہر   کے کھنڈرات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کے وہاں سڑکوں کا جال سا بچھا ہوا تھا .

..یعنی ان میں جابجا اسقدر گڑھے اور سوراخ  تھے کے فضائی معا ئنے کے دوران زمین پر جال سا تنا ہوا نظر آتا تھا... بیشتر سڑکوں پر بلدیہ نے کو ئیں اور تا لا ب کی سہولتیں میسر کی ہوئیں تھی جس پر سے لوگ اپنے رب کی تسبیح و تہلیل بیان کرتے ہوے گزرتے. سڑکوں کے نیچے  فرآ ہمی و نکاسی آ ب کا بلکل  ویسا ہی جال بچھآ ہوا تھا جیسا کے او پر  سڑکوں کا تھا  یعنی ان  میں بھی جا بجا سوراخ موجود تھے  - آج کے دور کے مآ ہر ین بتاتے ہیں کے اس دور کے    ا نجینئیرز نے معلوم کر لیا تھا کے لطیف ما ئع کثیف کے اوپر ہی اوپر تیرتا ہے ---اس  ا ہم دریا فت کو انھوں نے ایک ہی  پا ئپ میں فرآ ہمی و نکاسی آ ب گزار کر استعمال کیا - اس کو تکنیکی زبان میں ملٹی پلکسنگ بھی کہتے ہیں - بعد میں ا ن ہی سوراخ زدہ لائینوں کے ذریع بجلی گزار نے کا عند یہ دیا گیا تاہم  سڑکوں  پر             ا یکسیڈ نٹ ، بوریوں  اور گولیوں  سے مرنے والوں کی تسلی بخش شر ح ہو نے کی وجہہ سے یہ منصوبہ مو خر کر دیا گیا اس زمانے کے جو     بعض  اخباری تراشے  دریافت ہوے اس سے  یہ بھی  معلوم ہوا کہ  اس زمانے کے کسی   وزیر ا علی نے ایتھاٰئیل الکوحل کے شرارتی مالیکیولوں کے دماغی نیورون پر ظالمانہ حملوں کے بٖعد  اعلان کیا کے  چھ مہینوں میں  کراچی اور پیرس کو ایک جیسا بنا دیں گے تو  پورے فرانس میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کے ایسا صرف اسوقت ہی ہو سکتا تھا جب کی پیرس  میں کوئی اتنا بڑا شہا بیہ آ کر گرتا  جتنا بڑا  کے خود پیرس ھے–
شہر کے کھنڈرات میں د بی ہوئی بعض دستاویزات سے پتا چلتا ہے کے  بعض علاقوں کے مکینوں نے کسی طوفانی بارش کے بعد جب پینے کے پانی میں مری ہوئی بلیو ں کے پنجر دریافت ہونے کی شکایات قاضی شہر کے سامنے پیش کی تاھم  ادارہ فراہمی و نکا سی آ ب نے     گو گل سر چ کر کے بتایا کے  فراہمی و نکاسی آ ب کے نظام کے منھ پر  کئی سال سے غیر سیاسی  مردہ گد ھو ں کے  پنجر پھنسے  ہوے ہیں  ، مزید براں اس پر جنگلی جنجر نامی پودا قیام پذیر ہے جن پر دریائی بطخوں نے انتہائی خوبصورت انڈے بچے دیے ہوئے ہیں، انکی موجودگی میں بلیا ں تو کیا چوہے تک  اس خود کار نظام کی وجہہ سے فراہمی آ ب کے  شرو ع  ہی میں  فلٹر ہو جاتے ہیں... ادارے نے یہ بھی عند یہ  ظاہر کیا  گدھوں کے تازہ پنجر جلد ہی فراہم ہوں گے تا کہ پانی میں CALCIUM ، POTASSIUM اور دیگر نمکیات کی کمی نہ ہونے پا ۓ یوں یہ معا ملہ انسانی صحت کو مقدم سمجھ کر رفع دفع ہوا-
شہر میں جا بجا بجلی کے  کھمبے گا ڑنے کا رواج تھا - ہمارے ما ہرین اب تک ان کھمبوں کی موجودگی پر حیران ہیں کیوں کے آج کل کے دور میں کھمبے صرف سڑکوں کے کنارے لگا ۓ جاتے ہیں - جبکے ہمارے ماہرین سخت تحقیق کے باوجود بھی کھمبوں کے او پر ، نیچے ، دائیں ، بائیں سڑ ک نام کی باقیات تلاش کرنے میں مکمّل ناکا م رہے ہیں- کھمبوں کی اکثریت میں البتہ  برقی قمقوں کا استعما ل نظر آ تا ہے تاھم قمقوں کے اندر ٹنگسٹن نامی دھات کے کیمیاوی تجزیہ سے اندازہ ہوتا ہے کے ان میں سے اکثریت عا لم دوشیزگی میں ھی دا عی اجل کو لبّیک کہ گئی   .

..یعنی ان میں سے برقی رو کبھی نہ گزری -
 شہر میں لوہے کے بعض بڑے بڑے ٹکڑوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کی حکومت نے عوامی سہولت کے واسطے بس سروس مہیا کر رکھی تھی ...  بسوں کے اندر کے حا لا ت کسی الف لیلوی داستان سے کم نہ ہوتے تھے  - دفتر سے واپسی پر اچار ، چورن، مرغی ، سوی دھاگہ سے لے کر نا ڑ ے تک بسوں کے اندر ہی مل جاتے-     نا ڑ  ے البتہ  کافی سیاسی  قسم کے ملتے  یعنی اکثر  اوقات پبلک کو  پبلک مقام پر ہی دھوکہ دے جاتے- سڑکوں، عما رتوں ، پل ، ہسپتال اور  گھروں کی طرح بسوں کے اندر پان کی پیکوں کے اس قدر دلفریب اور روح پرور نقش و نگار ملتے کے انھیں دیکھ کر بندہ گھنٹوں محورہتا- میرا دوست جو کے taphonomy کا ہونہار طالبعلم تھا اسکو اس نظریے سے جمہوری اختلاف تھا یعنی وہ کہتا تھا کے بندہ نقش و نگار نہیں بلکے گٹکے میں موجود گا ے  کے خون  میں  سےبعض کیمیاوی اجزا ء جیسے  methane، ammonia...وغیرہ وغیرہ کی  وجہ سے" ٹُن"  ہوتا ہے...عرف عا م میں ا سے تعفن  بھی کہتے ہیں---
کیمیاوی ماہرین کے علاوہ نکلئیر اور کوانٹم  فزکس کے محقق بھی بسوں میں موجود زندہ  CRITICAL MASS   کے تجربوں سے فیضیاب ہوتے تھے - بسسوں کے اوپر ، نیچے ، دا ئیں  ‍، با ئیں ہر طرف لوگ شہد کی مکھیوں کی  طر ح چمٹے ہوے  ہوتے - بسوں کے دھوا ں  دینے والے پا یپ چونکے قدرے با ہر کو نکلے ہوتے تھے لہٰذا  کچھ شرا رتی قسم کے لوگوں نے وہاں بھی بیٹھنے کی جگہ بنا لی تھی -  غرض یہ کے دور سے یہ بس  کسی شہد کی مکہھی کا چھتّہ  معلوم ہوتی- اس قدر و ز ن کے ساتھ جب یہ  چلتی تو ایک تیز رفتار گدھے گا ڑ ی  سے بھی آ گے نکال جاتی - و یسے بھی بس میں اور گد ھا گا ڑ ی میں صرف یہی فرق  تھا  کہ گدھا گا ڑ ی میں صرف ایک ہی گد ھا ہوتا ----وہ بھی با ہر .

.. اسقدر و ز ن کے ساتھ چوں کے   عمو ما " بریک کی چندا ں ضرورت نہ ہوتی اس لے بریک کے نظام کو جڑ سے اکھا ڑ دیا گیا تھا ... روکنا ضروری ہوتا تو اس کے لے کسی سا کن  شئے  کو ڈھونڈا جاتا جیسے ...  سڑ ک پر کھڑا کوئی شخص .....  ضرورت تو سٹیرنگ کی بھی نہ پڑتی پر زیادہ پیار آیا تو پچکارنے کے انداز میں  ہاتھ پھر دیا--
اس زمانے کا  سب سے قا بل ذ کر کارنا مہ  سفری بیت الخلاء  کا قیام تھا .

..  قبل ھجرت اس "SERVICE"    کو ریلو ے کے نام سے بھی پکا را جاتا تھا ...سفری بیت الخلاء کا قیام کب ،  کیسے  اور آخر کیوں وجود میں آ یا  اس جواب محقققین کے پاس بھی نہیں ....سینہ بہ سینہ جو روایتیں ملتی ہیں اس سے پتا چلتا ہے کے انگریزوں نے جانوروں کی ترسیل کے واسطے ر یل کا ایک  ٹر یک کراچی سے پشاور تک ڈلوا دیا جسے آ زادی   کے بعد  فورا " ہی  ریلوے کا درجہ دے دیا-ریلوے کا سفر بس یا جہاز کی طرح نہیں ہوتا تھا .

.. یعنی ذہنی از یت کے لحاظ سے یہ اسی وقت شروع ہو جاتا جب بندہ اسکی نیت کر لیتا......  ٹر ین ا سٹیشن پہنچنے کے لئے زیادہ تک و دو نہیں کرنا پڑ تی تھی  -  بس زر ا  بندے کی عز ت نفس مردہ ا ور  ناک کھلی ہونی چاہیے تھی .....ا سٹیشن پہنچتے ہی  انسان کو ز مین پر قدم رکھنے کے لئے    پھلوں کے انو ا ع  اقسام کے  چھلکوں میں سے کسی  ا یک  کا انتخاب کرنا پڑ تا ا و ر اگر  خوش قسمتی سے  کیلوں کے چھلکوں پر قدم نہ پڑتے  تو ا نسان اس بے ثبا ت زندگی کے مز ید کچھ  ا و ر  دن مزے لوٹ سکتا..... ا سٹیشن او ر  "پلیت" فار م پر پا ن کی" پیکو ں " سے مزین گندھارا آرٹ کے نادر نمونے  اب تک نظر آ تے ہیں .

...یہیں پر HADRON COLLOIDER کے بعد دنیا  کی سب سے   بڑ ی PHYSICS LABs موجود تھی  جہاں عو ا می  مدد سے  پان کو لعا ب د ہن سے اچھی طرح
مکس کر کے SUBATOMIC PARTCLE PROJECTILE MOTION  کے تجربے  کۓ جاتے.  آج سائنسدا ن اعترافی کہتے ہیں کے  پان کے اجزا میں اگر مزید چونا ا و ر کتھا ملا دیا جائے تو ہمارا موجودہ  دفاعی شعبہ کمیائی ہتھیاروں میں  خود کفیل  ہو سکتا ہے –
ٹرین پر سفر سے قبل ہر بندے کا CORONA TEST لازمی ہوتا  .

..اس مقصد کے لئے خون کے تجزیے کے پرانے اور فرسودہ طریقے کے بجا ۓ  نیا  طریقہ اختیار کیا گیا یعنی "پلیت" فا رم کے بن کباب کھا کر بندہ اگر دس       
-  PASSED AWAY …      وگرنہ PASS منٹ     SURVIVE  کر گیا تو        
 بر گر کھانا جوے شیر لانے کے مترادف ہوتا - اسکی بدبو سے انسان تو انسان ، رینگنے ، اڑنے ، چلنے والے جانوروں کے علاوہ ہر وہ جاندار جس میں سونگھنے کی حس موجود ہوتی وہ  بن کباب کے جا ے وقوع سے میلوں دور بھاگتے .

..محقق کہتے ہیں کے مطابق اس زمانے کی پولیس ان بن کبابوں سے دورا ن تفتیش مجرموں سے اقبال جرم کروا نے کا کام بھی لیتی تھی -
بعض مورخ کہتے ہیں کہ یہاں کی ریلوے دنیا کی واحد"گرین" ٹر ین ہوتی تھیں یعنی انکی بوگیوں پر ہر ا رنگ ہوتا تھا-  ٹرین سے تمام  غیر ضروری چیزیں پھنکوا دی گئی تھیں ...جیسے سیٹیں ، پنکھے ، لا ئیٹیں ، عملہ وغیرہ ...تا ہم  بو گی میں  موجو د  بیت الخلا پرانی  تہذیب کے تما م لوا ز ما ت سے مزین ہوتا تھا - باقی کا ذکر ہی کیا .

..WC  پر بیٹھ کر  بھاگتی  پٹریو ں کا جو   دل فریب نظارہ کیا جا سکتا تھا  اسکا مزہ آج کی  ڈ ذ نی لینڈ کی مہنگی  ترین RIDES پر بھی میسر نہیں ...مزید    بر آ ں  اس سہولت کے اور بھی  کئی  فائدے  ہوتے  جیسے اسکی بدولت  ٹرین کے تمام  ٹر یک ہرے بھرے ہو گئے تھے -  البتہ انجنوں کی قلیل تعداد پر فکر مند اس وقت کے وزیر ریلوے  نے جب  سیکٹری ریلوے سے پوچھا کہ  کیا بات ہے کہ بہت سا ر ے انجن مل نہیں رہے ؟ تو سیکٹری نے  فورا " کہا--   آ و ا ر ہ کہیں کے --
ا یک  عوا می ا لنسل کی جیب سے البتہ کا غذ کا ورق دریافت ہوا جس پر تحریر تھا ...
اس قید  کا الہی دکھڑا کسے سنا ؤں  
ڈر ہے یہیں قفس میں کہیں غم سے مر نہ جاؤں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :