آخر ہمارا صحافتی معیار کیا ہے؟

جمعہ 1 نومبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

گزشتہ روز ڈیرہ غازیخان پریس کلب سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کی سوشل میڈیا پر چند تصاویر دیکھیں ،تصویر کے ساتھ تفصیل میں مذکورہ صحافی صاحب نے اپنے دیرینہ مخالف سرکاری اہلکار کے ساتھ غلط فہمیاں دُورہونے کی بھی نوید بیان فرمائی ہوئی تھی۔صحافی اور نوجوان سرکاری ملازم کے درمیان صلح کی خبر سن کر اول تو دل کوخوب تسلی ہوئی کہ چلو اب مذکورہ صحافی کی طرف سے نوجوان سرکاری ملازم کے خلاف سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے تو کم از کم ہماری بھی جان چھوٹے گی۔

ڈیرہ غازیخان پریس کلب سے تعلق رکھنے والے مذکورہ صحافی نے گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے ایک حساس ادارے کے سابق اور سرکاری اسپتال کے موجودہ ملازم کے خلاف سوشل میڈیا پر اور ایک نامور اخبار میں خبریں لگا ،لگاکر قارعین اور سرکاری ملازم کا جینا حرام کئے رکھا۔

(جاری ہے)

مذکورہ صحافی کی جانب سے ہر خبر اور سوشل میڈیا کی پوسٹ میں نوجوان سرکاری ملازم کو بد عنوان،بد چلن،بلیک میلر ،مجرم اور راشی قرار دیا گیا اور ہمیشہ اس کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

گزشتہ روز صحافی موصوف نے لکھا کہ ہمارے درمیان معاملات ٹھیک ہو گئے ہیں اور تمام غلط فہمیاں بھی دور ہوگئی ہیں۔اب یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ صحافی اور نوجوان سرکاری ملازم کے درمیان پہلے کونسی غلط فہمیاں تھی ،جس کی بناء پر صحافی نے ایک سرکاری ملازم کا جینا حرام کر دیا اور اس کی کردار کشی کی۔
مندرجہ بالا تمام صورتحال میں بندہ کی دلچسپی اس معاملے میں نامور اخباروں کے کردار اور صلح کے بعد کی صورتحال تھی۔

اول بات تو یہ ہے کہ ایک صحافی کام صرف غیر جانبدار رہ کر رپورٹنگ کرنا ہوتا ہے۔صحافی خود اپنی کوئی بھی رائے قائم نہیں کرسکتا۔حالات واقعات کو دیکھتے ہوئے رائے قائم کرنا عوام الناس کاکام ہے۔لیکن ہمارے ہاں تمام بڑے چھوٹے اخبارات اور ٹی وی پروگرامز میں صحافی بھائیوں نے اپنی عدالتیں اور انصاف کا اپنا معیار قائم کیا ہوا ہے ۔کسی بھی انسان کو مجرم ،راشی، یا بد عنوان قرار دینا عدالتوں کا کام ہے لیکن موجودہ صورتحال میں ہم صحافی عدالتوں کا کام بھی خود انجام دے رہے ہیں اور کبھی کسی سے اختلاف ہونے پر اس کو بد کردار،راشی ،کبھی بلیک میلر تو کبھی مجرم ثابت کر نے کی کوشش کرتے ہیں توکسی سے ذاتی مفاد کے حصول کے لیے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ ڈیرہ غازیخان میں پریس سے تعلق رکھنے والے 80%افراد تو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں ہیں۔بیشتر میڑک ،یا ایف اے پاس ہیں اورچند صاحبان تو میڑک پاس بھی نہیں ہیں۔چند افراد جو بی اے پاس ہیں وہ بھی صحافت کی بنیادی اصولوں سے ہی نابلد ہیں۔صحافیوں کی تربیت کا بھی کوئی جامع نظام موجود نہ ہے ۔تربیت او رپیشہ ورارنہ تعلیم کی کمی کے سبب بیشتر صحافی بلیک میلر کا روپ دھار چکے ہیں اور صحافت کا نام برباد کررہے ہیں۔

قارعین ! آپ آج ڈیرہ غازیخان اور اس کے مضافات میں چلے جائیں اور کسی بھی راہ چلتے شخص سے علاقے کے نامور صحافیوں کے کردار کے بارے میں پوچھ لیں۔آپ کانوں کا ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائیں گیں۔
دنیا جہان میں صحافت کا مقصد لوگوں تک غیر جانبدار ہو کر خبریں پہنچانا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ رواج بن چکا ہے کہ صحافت کو اپنے ذاتی مفاد و مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔

بڑے بڑے جاگیر دار اپنے ذاتی مفاد کے تحفظ کے لیے اپنے میڈیا ہاؤس قائم کر لیتے ہیں اور مختصر سی سرمایہ کاری کی بدولت اپنے جائز اور ناجائز مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ مافیا کی شکل اختیار کر لیتے ۔آج پاکستان میں بھی میڈیا انڈسٹری ایک مافیاں کا روپ دھار چکی ہے۔جب چاہا ،جیسے چاہاں ،جس کی چاہا عزت اچھا ل دی۔ میڈیا گروپ کے مالکان نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے مختلف سیاسی پارٹیوں کے الحاق کئے ہوئے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کونسا میڈیا گروپ ،کونسا صحافی،کونسا کالم نگار کس پارٹی کے ساتھ ہے اور وہ کس کی مدح سُرائی دن رات بیان کرتا ہے۔دیگر معاشرتی معاملات کی طرح صحافت کے معاملے میں بھی ہم اپنے مفادات اور ذاتی خواہشات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ایک صحافی کو بلیک میلر بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ مالکان کا ہے۔مالکان اول تو صحافیوں کو تنخواہ ہی نہیں دیتے ،اگر دیتے بھی ہیں تو انھیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف اُن کی خواہشات کے مطابق ہی کام کریں۔


ڈیرہ غازیخان میں پیش آئے واقعے کے بارے میں ہمیں جانچنا ہو گا کہ آیا نوجوان سرکاری ملازم کیا واقعی کرپٹ تھا اور کیا واقعی وہ غیر قانونی سر گرمیوں میں ملوث تھا؟ یا ایک صحافی نے صرف ذاتی مفاد کے حصول کے لیے بہتان تراشی کی۔اگر نوجوان سرکاری ملازم واقعی گناہ گار تھا تو اب اسے معافی دینے والا صحافی کون ہوتا ہے،اور صلح کے بعد کیا اب وہ پاک صاف ہو گیا ہے؟۔

اگر نوجوان سرکاری ملازم کرپٹ نہیں تھا تو صحافی نے اس پراس قدر گھٹیاں اورجھوٹے الزامات کیوں لگائے؟۔مندرجہ بالا معاملے میں قصور وار کا محاسبہ ضرور ہونا چاہیے اور اعلیٰ حکام کو اس معاملے پر تحقیقات ضرور کر نی چائیے۔صحافت بھی ہمارا مقدس پیشہ ہے اور سرکاری ملازم بھی ہمارا اثاثہ ہیں۔ہمیں اپنے دونوں شعبہ جات کو بچانا ہوگا۔بقو ل شاعر
موج بڑھے یا آندھی آئے ، دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے ، گھر تو آخر اپنا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :