” یہاں تو شہر کے شہر گئے “

جمعہ 5 جون 2020

Ahmed Khan

احمد خان

امریکہ میں پو لیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شہر ی کی ہلا کت کے خلاف امریکہ میں ایسے احتجاجی مْطاہر ے پھو ٹ پڑ ے کہ کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہے ، امریکہ کی کوئی ریاست کو ئی شہر ایسا نہیں جو ایک شہر ی کے ساتھ ہو نے والے ریاستی ظلم کے خلاف سر تاپا احتجاج نہ ہو ، ایک شہری کی پو لیس کے ہا تھوں ہلا کت کے خلاف امریکی عوام بپھرے ہو ئے ہیں اور مطالبہ بس یہ ہے کہ حکومت اس ظلم کا حساب دے اور پورا پورا دے ، جب سے سیاہ فام شہر ی کی ہلاکت کا دل خراش واقعہ رونما ہو ا ہے امریکی صدر اور امریکہ انتظامیہ کی جان پر بنی ہو ئی ہے ، یو ں سمجھ لیں کہ امریکی صدر کے ہاتھ پا ؤں پھولے ہو ئے ہیں ، انتظامیہ الگ سے سر پکڑ ے بیٹھی ہے ، موقع اچھا ہے اسی تناظر میں اپنی حالت زار اور رویوں کی جانچ کر لیجیے ، ہر دور کے حکومت سے عوام کی سطح پر گلے شکوے عروج پر رہے ہیں ، سماجی میل جول کے رابطوں کی فراوانی سے قبل تھڑ وں ، عوا می ہو ٹلوں ، ڈیروں، چوکوں اور چوباروں پر بیٹھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال کر اطمینان سا ہوجا تا کہ بس معاملہ ” فٹ ‘ ہو گیا ، جب سے سماجی میل جول کے را بطے ہماری زندگیوں میں دخیل ہوئے اب عوامی چوکوں اور چوباروں تک بھی دو گام کی زحمت سے جاں چھو ٹ گئی ، سماجی میل جو ل کے رابطوں پر عوامی معاملات پر لب کشائی کر کے ہر شہری سمجھتا ہے کہ اس نے ریاستی ، حکومتی، ادارہ جاتی اور سماجی سطح پر روا ظلم و ستم کے خلاف اپنا حق ادا کر دیا ، اپنی ذات اور اپنے مفاد کی شمع تک محدود ہو نے کی سوچ ہی در اصل ہمارے تمام انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل میں بڑی رکا وٹ ہے ، دیار غیر میں ایک شہر ی کی ہلاکت پر پوری قوم صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے ، ذرا ادھر کے حالات پر نظر ڈال لیجیے وطن عزیز میں عوام کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ، آئے روز ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم ہو تی ہیں کہ دل کانپ سا جا تا ہے ، کیا آئے روز پو لیس مقابلے بہت عر صہ تک وطن عزیز میں عام نہیں رہے ، انفرادی ظلم و ستم کی کہانیاں تو گو یا روزمر ہ زندگیوں کا حصہ بن چکیں ، انفرادی مسائل تو رہے ایک طرف ہمارے ہاں تو اجتمائی معاملات اور مسائل کے باب میں بھی عوام ” کھٹور دل “ واقع ہو ئے ہیں ، ماضی قریب کو ہی پر کھ لیجیے ، سانحہ ماڈل ٹاؤن پو ری انسانیت کے ما تھے پر کلنک کا ٹیکہ تھا مگر کیا اس ظلم کے خلاف قوم باہر نکلی ، کچھ ایسا ہی ساہیوال میں ہوا ، کیا ساہیوال سانحہ میں یتیم ہو نے والے بچوں کے لیے قوم نے عملا ً کچھ کیا ، لا قانو نیت ، گرانی ،بے روز گاری ہر گھر کے مسائل ہیں مگر ذرااپنے دل پر ہا تھ رکھ کر بتلائیے کیا کرا چی سے پشاور تک ایک ساتھ عوام نے کبھی صدائے احتجاج بلندکی ، عوام سے لگ کھا نے والے کس کس قضیے کا تذکر ہ کیا جا ئے اور کس سے قلم پہلو تہی کر ے ،وطن عزیز میں بسنے والوں کے سماجی رویے اور نظر یات اقوام عالم سے بالکل نرالے ہیں ، مسلم لیگ ن کے عہد حکومت میں اگر عوام کے کسی حق پر ڈالہ گیا تب پی پی پی اور تحریک انصاف کے سیاسی حلقوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر مسلم لیگ ن سے جڑ ے احباب چپ سادھے رہے ، اسی طر ح جب کبھی پی پی پی کے عہد حکومت میں عوامی حقو ق پر قدغن لگی تب مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف والوں کی سیاسی قیادت اور کارکنوں نے آسماں سر پر اٹھا نے کی سعی کی ، تحریک انصاف کے عہد میں بھی عین یہی رویہ دیکھنے کو مل رہا ہے ، عوام کے بہت سے اجتماعی حقوق پر تحریک انصاف کی حکومت نے قد غن لگا ئی مگر تحریک انصاف کی سیاسی قیادت اور کا رکن اپنی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کر رہے ، سماجی حوالے سے ہمارے قاعدے اور ضابطے طور طریقے عجیب سے ہیں ، ہر شہری کا ظلم اور نا انصافی کا اپنا اپنا دائر ہ ہے ، در اصل انہی اپنے اپنے ” دائر وں “ نے ظلم کے ہاتھوں کو توانا ئی اور پذیرا ئی بخشی ہے ، ظلم ظلم ہو تا ہے چا ہے وہ مسلم لیگ ن کر ے چاہے وہ پی پی پی کرے چا ہے وہ تحریک انصاف کر ے ، چاہے وہ ریڑ ھی بان کر ے یا کو ئی راہ گیر ، ظلم کا نہ کو ئی رنگ ہو تا ہے نہ کو ئی درجہ بس ظلم ظلم ہو تا ہے سو طے کر لیجیے کہ سماجی سطح پر بطور قوم ہم نے ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کر نی ہے یہ نہیں دیکھنا ہے کہ ظالم کو ن ہے ظلم کس کے ساتھ ہوا ہے ، جس دن ظلم کے خلاف ایک تعریف پر پو ری قوم متفق ہو ئی ، دیکھ لیجیے پھر نہ تھانوں میں بے گناہ شہری پو لیس کے ہاتھوں مر یں گے نہ کو ئی طاقت ور محض ایک پر ند ے کی وجہ سے کسی معصوم کو بے در دی سے قتل کرے گا نہ کو ئی درندہ چلتے پھر تی زندگی پر کتے چھو ڑے گا نہ کو ئی کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالے گا نہ کمزور طاقت ورکے ہاتھوں رسواہو گا مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم سیاست ، مسلک ، ذات پات کی عینک اتار پھینکیں گے اگر عوامی سطح پر اپنے اپنے ” بت “ کی پوجا کر نی ہے پھر کل کلا ں نہ حکومت کو دوش دیجیے نہ سماجی نا ہموراریوں پہ لب وار کر نے کی زحمت کیجیے، پہلے خود اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے اندر شعور پیداکیجیے پھر دوسروں پر گلہ کیجیے۔

کیا خیال ہے ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :