” خرابی کی جڑ “

جمعہ 4 دسمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

عدالتوں میں سالوں ننگی پاؤں گھو منے والی انصاف کی متلا شی خاتون کے دادا والد اور چچا کے قاتلوں میں سے خدا خدا کر کے ایک ملزم گر فتار ہو چکا ، طاقت ور قاتل پر ہاتھ ڈالنے میں انتظامیہ کو سالوں لگ گئے ، اس پیش رفت کے پیچھے بھی عدالت عظمی کی کرم فرمائی ہے اگر عدالت عظمی اس مقد مے میں مداخلت نہ کرتی شاید بہت سے بے کسوں کی طر ح ام اربا ب انصاف انصاف کی دہا ئی دیتی بے نیل ومرام اپنے رب کے حضور ہو جاتی ، اریب قریب سات دہا ئیوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا اقدار میں تبدیلی آئی ، پرانی روایات مد فون اور نئی روایات نے جنم لیا ،کل تک ” مٹر گشت “ کر نے والے محالات کے مالک بن گئے ، مانگے تانگے پر زند گی گزارنے والے ارب پتی بن گئے ، سیاست کے ایوانوں میں عوام کی خدمت کے نام پر بڑے بڑے سورما آئے اور گئے ،بس نہیں بدلا تو نظام انصاف نہیں بدلا ، مادی تر قی اور انسانی شعور میں اضافے کے ساتھ اقوام عالم میں تیز تر انصاف کی فراہمی کی لیے اقدامات کیے گئے ، خود کو زندہ اقوام کہلوانے والوں نے عام آدمی کو ماہ و سال کے بجا ئے دنوں میں انصاف کی فراہم کر نے کے لیے ریاستی سطح پر ” آفریں “طر ز کے قوانین کا نفاذ کیا ہمارے ہاں مگر حکومتی ایوانوں کے مکینوں نے عام آدمی کو انصاف کی تیز تر فراہمی کے باب میں کیا کیا، پارلیمان کو سیاست کے کاروبار سے وابستہ بالادست ادارہ کہتے ہیں ، عوام کے اس بالادست ادارے نے عام آدمی کے لیے انصاف کی فراہمی کے باب میں کیا اقدامات کیے ، کو ن سے قوانین بنا ئے ، کن قوانین کا نفاذ کیا اگر پارلیمان کے مکینوں کو عام آدمی کے ساتھ روا ظلم و ستم کا ادراک ہوتا اگر عام آدمی کے حقوق کی حق تلفی کا سیاسی ساہو کاروں کو احساس ہوتا ، ریاستی اور سماجی سطح پر آج عام آدمی کو اپنے حق کے لیے در در کی ٹھو کریں نہ کھا نی پڑ تیں ، نظام انصاف میں پا ئے جا نے والے ” جھول “ اور خامیوں نے پاکستانی معاشرے کو ” جنگل زدہ “ معاشرے میں تبدیل کر دیا ہے ، عدالت عالیہ اور عدالت عظمی کے سوا تیز تر انصاف کی فراہمی عام آدمی کے لیے محض سراب ہے ، انصاف میں تاخیرہی در اصل قدم قدم پر ہو نے والے جرائم کی جڑ ہے ، معاشرے میں انصاف کا بول بالا نہ ہو نے کی وجہ سے عملاً کیا حالات ہیں ، ادارہ جاتی سطح پر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون کا راج ہے ، شخصی سطح پر بھی یہی کہانی ہے جو طاقت ور ہے قانون اس کے لیے موم کی گڑ یا ہے ، طاقت ور اپنا حق ” ڈنڈے “ کے زور پر حاصل کر لیتا ہے ، عام آدمی مگر عین اسی طر ح کے حق کے لیے چیختا ہے چلا تا ہے آہ و زاری کر تا ہے مگر اس کی فر یاد سننے والا کو ئی نہیں ہوتا ،کیوں ؟ اس لیے کہ ہر طاقت ور ہر قاتل ہر دغاباز کو معلوم ہے کہ انسانوں کے اس جنگل نما معاشرے میں درد کی صدا سننے والا کو ئی نہیں ، پارلیمان کے مکین چاہتے تو گھنٹوں میں انصاف کی فراوانی کے لیے قوانین بنا سکتے تھے اور سماجی سطح پر ان کا چلن عام کر سکتے تھے مگر جا نتے بوجھتے ہر وقت عوام کے غم میں گھلنے والوں نے دیدہ و دانستہ عام آدمی کے لیے انصاف کی تیز تر فراہمی کے باب میں کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا ،عیاں سی بات ہے جب ” محمود و ایاز “ قانون کی نظر میں ایک ہو جا ئیں پھر سیاست کے طبقہ اشرافیہ کی ”مالش “ کو ن کر ے گا آوے بھئی آوے کے نعر ے کون لگا ئیں گے پھر سیاست کے ” خدمت گاروں “ کے ڈیرے کیسے آباد ہو ں گے ، ریاست کے ادارے اگر آناً فا ناً عام آدمی کی داد رسی کر نے لگ جا ئیں پھر سیاست دانوں کی منت سماجت کو ن کر ے گا ، چاہے اچھا لگے یا برا ، جب تک عدالتی نظام میں حاکم طبقہ اصلاحات نہیں کر تا اس وقت تک عام آدمی کے لیے فوری انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ، کیا ہی اچھا ہو اگر مختلف جرائم کے بارے میں قوانین بنا ئے جا ئیں ، جرم کی نو عیت مطابق مقد مات کے لیے عدالتوں کو ایک خاص مدت میں فیصلے کر نے کے لیے پابند کیاجا ئے جو معزز جج مقررہ مدت میں متعلقہ مقدمے کا فیصلہ نہ کر ے اس سے باز پر س کی جا ئے ، عدالت عظمی کے عز ت ماب چیف جسٹس صاحب اگر عدالت عظمی میں ایک خاص شعبہ قائم کر لیں جو ملک بھر کی ضلعی عدالتوں سے لے کر ہا ئی کو رٹس تک کی عدالتوں میں زیر سماعت مقد مات پر نظر رکھے اس سے کسی حد تک مقد مات کی جلد سما عت اور جلد عدالتی فیصلوں کی راہ ہم وار ہو سکتی ہے ، ورنہ ام ارباب کی طر ح ہزاروں لاکھوں انصاف کے متلاشی انصاف کے حصول کے لیے اسی طر ح ایڑ یاں رگڑتے رہیں گے ، مخلوق خدا انصاف کی سست روی کی وجہ سے گوناگوں مشکلات کا شکار ہے کچھ تو مخلوق خدا کی آسانی کے لیے کیجیے آخر کب تلک ” پتر جمال “طر ز کی حکومتی پالیسیوں کا چلن عام رہے گا، کب تلک حاکم طبقہ عوام کے دلو ں کو محض خالی خولی نعروں سے لباتا رہے گا ، بہت ہو گیا اب عوام کے لیے آسانیاں پیدا کر نے کا ساماں کیجیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :