”انصاف کہاں ملتا ہے“

پیر 11 جنوری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

شہر بے اماں میں جواں سال کا قتل چیخ چیخ کہہ رہا ہے کہ یہ ایک اسامہ کا قتل نہیں بلکہ یہ ہر شر یف شہر ی کا قتل ہے یہ ہر قانون پسند کا قتل ہے یہ ہر لا چار کا قتل ہے یہ ہر بے کس کا قتل ہے ، حالات کس چیز کی منظر کشی کر رہے ہیں، ہر طاقت ور کے لیے انصاف کا قتل گویا بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں عین اس طرح سے نہتے مرد و زن کو سیدھی گولیاں مارگئیں تھیں ، طاہر القادری برسوں وایلا کر تے رہے مگر ان کا تمام تر وایلا رائیگاں گیا ، شعور کے ہنر سے لیس شہر یوں کی تمام تر چیخ وپکار سے کسی کے کان پر جو ں تک نہ رینگی ، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بد بو دار کر داروں کو اہل اختیار کی جانب سے عبرت ناک سزائیں دینے کے وعدے کیے گئے جیسے ہی مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن پر وقت کی گرد جمی سانحہ ماڈل ٹاؤن کو من مر ضی سے دفن کر دیا گیا ، آج اس سانحہ کے کردار سینہ تانے مقتول خاندانوں کی سینوں پر کروفر سے مونگ دل رہے ہیں ، سانحہ ساہیوال میں ملوث ظالم ہاتھوں کے کاٹنے کے دعوے بھی ہوا ہو ئے آج اس افسوس ناک واقعہ کے معصوم انصاف کے در وازے پر نظریں جما ئے بیٹھے ہیں ، اسامہ کے قتل پر بھی مقتدر حلقوں کی جانب سے روایتی ” مر ہم “ رکھنے کا سلسلہ چل سو چل ہے ، طاقت وروں کے معاشرے میں کیا اسامہ کو انصاف مل سکے گا ؟ بھلا اس سوال کا بہتر جواب آپ سے زیادہ کو ن جانتا ہے ، بلو چستان کی ہزارہ برداری پھر سے اپنے پیاروں کی لا شیں یخ بستہ سردی میں سڑ کوں پر رکھ کر تادم تحریر سرتاپا احتجاج ہے ، طاقت کے پیروکار معاشرے میں یعنی انصاف کا حصول باقاعدہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے ، ہر مظلوم انصاف کے حصول کے لیے ماتم کر تا ہے لیکن مظلوم کی تمام تر آہ وبکا کا نتیجہ صفر بٹا صفر برابر صفر ہی آج تلک نکلتا رہا ہے ، عائلی سطح پر قتل و غارت اپنی جگہ المیہ، سرکار کے ہاتھوں معصوم شہر یوں کو بھو ننے کو خیر سے کیا نام دیا جا ئے ، پو لیس کا ادارہ عوام کی جان و امان کی حفاظت کے لے قا ئم کیا گیا سب سے زیادہ مگر پو لیس کے ہاتھوں عام شہر یوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکیں ، ادارہ جاتی سطح پر انصاف کا قتل دراصل پاکستانی معاشرے کا ایک سلگتا ہوا نو حہ ہے ، سرکار کے ” مسکین “ سے مسکین ادارے میں عوام کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے بیاں سے باہر ہے جہاں تلک سرکار کے دھا نسوقسم کے اداروں کی بات ہے سرکار کے ان اداروں میں عوام کے ساتھ ” شودر پن “ سے بھی بد تر برتا ؤ کیا جاتا ہے، بھولے بھٹکے سے سرکار کے ظلم کے خلاف اگر کو ئی شہری ” در انصاف “ پر دستک دینے کی کوشش کرتا ہے اس کی آہ و زاری بھی ” شک “ کی دیوار سے ٹکراکر واپس پلٹ آتی ہے ، پاکستانی معاشرے میں انصاف کیوں پھل پھول نہ سکا ، پہلے مظلوم کی ” آہ “ کو پو لیس تتر بتر کر لیتی ہے مابعد عدالتوں میں جرائم میں ملوث عناصر ” شک “ کا فائدہ اٹھا کر آزاد ہو جاتے ہیں ، نظام انصاف میں پا ئے جانے والے مختلف قسم کے ” سقم “ نے انصاف کے حصول کو اریب قریب غریب اور عام شہر ی کے لیے ناممکن بنا دیا ہے ، نظام انصاف میں پائے جا نے سقم کی بنا پر جرائم کی دنیا کے ” مر ہٹے “ لگے سات دہا ئیوں میں اتنے طاقت ور ہوچکے کہ اب انہیں نہ سرکار کی پرواہ ہے نہ سرکار کے اداروں کا ڈر نہ انہیں عدالتوں کا خوف ہے ، قانون کی پاسداری نہ ہو نے کی وجہ سے ” بیمار ذہن “ رکھنے والے جب چاہیں جو چاہیں کر گزرتے ہیں ، جرائم کی دنیا کے ان بد قماشوں کو نہ جرم کر نے سے پہلے قانون کی گھڑی کی ٹک ٹک سنا ئی دیتی ہے نہ جرم کر نے کے بعد انہیں قانون کی ہتھکڑی کا خوف دامن گیر ہوتاہے ، سوال مگر یہ ہے آخر کب تک عام شہری ظلم کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے ، کب تک طاقت ور قانون کو پاؤں تلے روندتے رہیں گے ، کب تک جرائم کے ” سر خیل “ عدالتوں کا مذاق اڑاتے رہیں گے ، وقت کے تقاضوں کے مطابق قانون میں ترامیم کیجیے ، نظام انصاف میں سر عت کے ساتھ ظالموں کی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ” زباں بندی “ کی راہ اپنا ئیے ، کب تک اسامہ جیسے ظلم کی پھا نسی پر چڑ ھتے رہیں گے ، ظلم وستم کی بھی کو ئی حد ہو تی ہے بس بہت ہو چکا اب ظلم کے آگے زبانی کلا می نہیں عملی طور پر بند باندھیے ، کہیں ایسا نہ ہو کسی دن آپ کے خلاف کروڑوں ” اسامہ “ آپ کے محالات کے سامنے انصاف دو کہنے کے لیے جمع ہو جا ئیں ، یاد رکھیے اس دن شاید پھر آپ کا اقتدار آپ کا اختیار آپ کا کروفر آپ کامال آپ کی دولت آپ کی اکڑ فوں آپ کو نہ بچا سکے، اس سے پہلے کے عوام کے ہاتھ آپ کے گریبانوں تک پہنچیں صائب مشورہ یہی ہے کہ عوام کے حقوق کے لیے کمر بستہ ہو جا ئیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :