”احساس زیاں“

ہفتہ 29 مئی 2021

Ahmed Khan

احمد خان

وبا کے ڈیر ے ڈالنے سے اجتماعی طور پر معاشرتی زندگی کیا سے کیا ہو گئی کسی کے وہم و گماں میں نہ تھا کہ عالم انسانیت کو ایسی ناگفتہ بہ صورت حال سے بھی دوچار ہو نا پڑ ے گا اگر چہ وبا کے پھیلا ؤ نے کسی نہ کسی طور ہر شعبہ ہا ئے زندگی پر منفی اثرات ڈالے کچھ طبقات مگر ایسے ہیں کہ کو رونا نے ان کی حالت پست تر کر دی خط غربت سے اریب قریب زندگی بسر کر نے والوں کے لیے کو رونا ڈارؤنا خواب کی شکل اختیار کر گیا ، راج مزدور کو رونا کی وجہ سے بھو ک کی دلدل میں مزید دھنستے چلے گئے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ” کفایت “ کا حشر نشر ہوا ، سچ پو چھیے تو کورونا کی وبا نے محنت کشوں اور طلبہ کا سب سے زیادہ زیاں کیا اس نا گہانی آفت نے روزانہ اجرت پر کام کر نے والوں کی جینے کی امنگ پر ایسی کاری ضرب لگا ئی کہ سال گزرنے کے باوجود محنت کش طبقہ ہنوز مالی طور پر ” اٹھنے “ کے قابل نہ ہو سکا ، کم وپیش ایسی صورت حال کا سامنا طلبہ و طالبات کو ہے ، چھو ٹی جماعتوں کے طلبہ و طالبات کی تدریسی سرگرمیاں ڈھنگ سے ہنوز شروع نہ ہو سکیں لگے ایک سال میں شعبہ تعلیم پر بس ” شش و پنج“ کے بادل چھا ئے رہے شعبہ تعلیم کی افادیت اور اہمیت سے آگاہ حلقے خوب جانتے ہیں کہ تد ریسی سرگرمیوں کے تعلطل سے طلبہ و طالبات کا کتنا تعلیمی حرج ہو چکا ، چلیں جو ہوا سو ہوا اب مگر شعبہ تعلیم کو چالو کر نے کے لیے حکومت کے اعل دماغوں اور شعبہ تعلیم سے وابستہ پالیسی سازوں کو درس گاہوں کو کھو لنے کے لیے سنجیدہ طور پر اقدامات کر نے ہو ں گے ، آخر کب تلک شعبہ تعلیم کو ” جامد “ رکھ کر معاملہ چلایا جا سکتا ہے ، ما ہرین تعلیم کے مطابق درس گاہوں کی بندش سے طلبہ و طالبات کا اتنا زیاں ہو چکا جس کا ازالہ برسوں ممکن نہیں ، تعلیم کے حصول کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہو ئے اب کا مل احتیاط کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کی شروعات کے بغیر چارہ نہیں ، دل چسپ امر یہ ہے کہ درس گاہوں کی لگا تار بند ش کو حکومت وقت نے نظر انداز کر تے ہو ئے نہم دہم اور سال اول و دوم کے امتحانات لینے کا عند یہ دیا ہے سوال مگر یہ ہے کہ گھر بیٹھے طلبہ و طالبات نہم دہم اور سال اول ودوم کے امتحانات میں بغیر تیاری کے کامران ہو سکیں گے ، کچھ ایسی ہی نازک صورت حال کا سامنا نر سر سی سے جماعت ہشتم تک کے طلبہ و طالبات کے امتحانات کے باب میں بھی در پیش ہے شعبہ تعلیم میں گویا اس وقت گو مگوں سی کیفیت چل سو چل ہے ، ان عجیب سے حالات میں پالیسی سازوں کو بہت ہی عرق ریزی سے ایسی جامع پالیسی تر تیب دینی ہو گی جس سے طلبہ و طالبات کا تعلیمی وقت کا ضیاع بھی نہ ہو اور طلبہ کی اہلیت پر بھی سوالات نہ اٹھیں ، اعلی درس گاہوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات کی تعلیمی سر گرمیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہو ئے چونکہ اعلی درس گاہوں کے طلبہ و طالبات عمر کے اس درجے میں ہو تے ہیں جو نہ صرف اچھے بر ے میں تمیز کر نے کے قابل ہو تے ہیں بلکہ تعلیم کی اہمیت سے بھی آگاہی رکھتے ہیں سو اعلی درس گاہوں میں زیر تعلیم طلبہ اس ” سخت کو شی “ میں بھی کسی نہ کسی طور پر اپنی درسی تعلیم سے جڑ ے رہے اور ازخود اپنے تعلیمی مستقبل کی بہتری کے لیے سرگرداں رہے ہیں البتہ اعلی تعلیم کے حصول میں مگن طلبہ و طالبات کے امتحانات کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے طلبہ و طالبات کی حق تلفی نہ ہو اور ان کے تعلیمی جانچ درست اشاریوں سے ہو سکے ، ایک ایسے ملک میں جہاں تعلیمی معیارپہلے ہی قدرے پست ہے اس ملک میں تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش کسی طور صائب امر نہیں ، حکومت وقت ، پالیسی سازوں والدین اساتذہ اور طلبہ و طالبات کو مل کر تعلیمی سر گر میوں کو رواں دواں رکھنے میں تہ دل سے اپنا اپنا کر دار ادا کر نا ہو گا ، یاد رکھنے والی بات کیا ہے ، کڑے اور کھٹن وقت میں قومیں جواں مر دی کے عزم سے حالات کو اپنے حق میں کیا کر تی ہیں ، خاص حالات میں خاص فیصلے کر نے پڑ تے ہیں اور ان پر صدق دل سے عمل پیرا ہونا زندہ قوموں کی نشانی سمجھی جاتی ہے سو شعبہ تعلیم میں آگے بڑھنے کے لیے ” اگر مگر “ سے نکل کر ملک و قوم کے مفاد کو سامنے رکھتے ہو ئے صائب فیصلوں کی راہ اپنا ئیے بصورت دیگر جس طر ح کے حالات چل سوچل ہیں ان حالات میں شعبہ تعلیم مزید زبوں حالی کا شکار ہوتا چلا جا ئے گا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :