”احساس زیاں“

جمعہ 5 نومبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

چھر ی گردن پر رکھیں یا گر دن چھر ی پر رکھیں عیاں سی بات ہے نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلا کر تا ہے ، صدا ئے احتجاج کی داستاں میں معاملہ کچھ چھری اور گردن والا ہے ، جمہوری اور مہذب معاشروں میں اختلاف رائے اور اپنے جائز حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کر نا شجر ممنو عہ نہیں ، تاریخ کے اوراق ہمیں کم ازکم یہی بتلا تے ہیں ، مملکت خداد پاکستان کی تاریخ احتجاجی تحریکوں کے حوالے سے اچھی خاصی در خشاں ہے سابق صدر ایوب کے خلاف تحریک کو لے لیجیے نو ستارے والی احتجاجی داستاں سے شعور کے ہنر سے لیس ہر شہری بخوبی آگاہ ہے صدر ضیاء کے دور میں کتنے جلا وطن ہو ئے کتنے جیل کے مکین بنے کتنوں نے کو ڑے کھا ئے کتنے جانوں سے گئے اب یہ وطن عز یز کا ان مٹ ماضی ہے ، نوے کی دہائی تو احتجاج کے حوالے سے ہنگامہ خیز رہی لا نگ مارچ تحریک نجات دھر نے گویا سیاسی طور پر ہلا گلا خوب تر رہا ، ماضی کا سفر طے کرتے کر تے احتجاج کی داستاں حال میں داخل ہو چکی ، ملک ایک بار پھر احتجا ج کی ہواؤں کی زد میں رہا ، انصافین حکومت اور تحریک لیبک آمنے سامنے رہے ، اب کے بار احتجاج میں سابقہ احتجاجوں کی طر ح پھر معصوم جا نیں مو ت کی آغوش میں چلی گئیں ، آخر ہمارے ہاں ہر احتجاج انسانی خون سے کیوں رنگین اور پھر سنگین ہوتا ہے ، اس سارے معاملے میں ” ماٹھے پن “ کا طرز عمل دونو ں جانب سے برتا جا تا رہا ہے ، اقتدار پر براجمان جمہو ریت پسند ہو ں یا آمر پسند اپنے مخالفین سے ان کا رویہ ہمیشہ ” میں نہ مانوں “ والا رہا ہے دوسری جانب سڑکوں کو آباد کر نے والے بھی اپنی انا کی آخری حدوں پر چلے جاتے ہیں سو وہ احتجاج جو حقوق یا اپنے نظر یات کے تحفظ کے لیے شروع ہوتا ہے فریقین میں انا ؤں کی جنگ چھڑ جا نے سے جمہوری طرز کا احتجاج انسانی خون سے رنگین ہو جاتا ہے ، دکھ بھرا سوال یہ ہے کہ ہر دور میں ہو نے والے احتجاج تو کسی منطقی انجام سے ہم کنار ہو تے رہے ہیں ، کو ئی احتجاجی تحریک نامراد رہی ، کو ئی احتجاج اپنے وقت کی حکومت کو کھا گیا ، ، تکلیف دہ امر لیکن یہ ہے ، کہ ماضی سے حال تک احتجاجی تحریکوں میں جتنے بھی رزق خاک بنے ، ان کے اہل و عیال کس کرب سے گزرے ان کے خاندانوں کی پر سکون زندگیاں کس طر ح سے المناک داستانوں میں تبدیل ہو ئیں ، اس اہم تر انسانی نو حے کی طرف نہ حکومت اور نہ ہی احتجاج کے سر خیلو ں کا دھیان گیا ، دور نہ جا ئیے حال کے احتجاج میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو نے والوں کے تذکرے کی طرف اپنا رخ مو ڑ لیتے ہیں ، تحریک لبیک کے جو کارکن اس احتجاج میں جان سے گئے ، وہ بھی ہمارا خون تھا وہ بھی ہمارے ہی بھا ئی بند تھے عین اسی طر ح سرکار کی کمان داری میں اس احتجاج کو روکنے میں جو قیمتی جا نیں چلی گئیں یہ بھی قوم کے فر زند تھے ان کا خون بھی ہمارا ہی خون تھا ، سچ کیا ہے ، لاش اگر حکومت کی صفوں سے گرے یا احتجاج کر نے والوں کی صفوں سے گر ے ہر دو صورتوں میں زیاں اپنا ہے ، جس طر ح سیاست ایک ” فن “ ہے بالکل اسی طرح احتجاج کے درد سر کا شافی علا ج بھی باقاعد ہ ایک ہنر ہے فطین حکمراں ہمیشہ احتجاجی تحریکوں سے طاقت کے بجا ئے تحمل اور بردباری کے ہتھیار کے زور پر نمٹا کرتے ہیں ، ملک و قوم کی فکر میں غلطاں حکمراں چا ہے کسی طر ح کی احتجاجی تحریک بھی ہو اس کے غبارے سے صائب قرینے سے ہوا نکالنے کی یو ں سبیل کیا کر تے ہیں کہ گملا ٹوٹے بغیر معاملات خوش اسلو بی سے کنا رے لگ جا یا کر تے ہیں ، ہمارے ہاں لیکن ہمیشہ سے احتجاجوں سے نمٹنے کے باب میں ہمارے ہر دور کے حکمراں بری طر ح سے نامراد رہے ہیں ، معاملات خراب کہاں سے ہو تے ہیں ، جیسے ہی کسی احتجاج کی سن گن حکمران اور ان کے مصائبین کے کا نوں میں پڑ تی ہے حکمرانوں کے مصائبین احتجاج کی آگ پر پانی ڈالنے کے بجا ئے اسے اپنے ” بیانات “ سے ہوا مہیا کر نے کی روش اپنا لیتے ہیں ، حکومت کے قد ر دانوں کے ا س جلا لی طرز عمل سے حکومت اور احتجاج کے سر خیلو ں میں معاملہ جنگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور پھر دونوں طرف سے ” آگ بگولا “ صورت حال کے جو نتائج نکلتے ہیں وہ دلوں کو افسرد ہ کر نے والے ہوا کر تے ہیں ، حالیہ احتجاج کو روکنے بلکہ ختم کر نے کے لیے ابتدا ء ہی میں اگر حکومت سنجیدگی دکھلا تی شاید حالات اس نہج پر جاتے ہی نہیں لیکن ابتدا ء میں سابق حکمرانوں کی طر ح موجود حکومتی مہر بانوں نے بھی اپنے مخالف فریق کو ” چیو نٹی “ سمجھے رکھا اورجب معاملات ناز ک تر ہو گئے پھر حکمرانوں کو حالات کی نزاکت کا احسا س ہوا لیکن لگے دنوں میں جو زیاں ہو نا تھا ہو ہو چکا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :