میں بولوں کہ نہ بولوں ؟‎

پیر 16 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

پاکستان کاوہ کون سا صادق اور امین ہے جو الیکشن دو ہزار اٹھارہ سے پہلے آئے روز یہ راگ الاپتا تھا کہ میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میں دنیا میں کسی بھی جگہ آرام سے گذارہ کر سکتا ہوں اور الیکشن کے بعد کہتا ہے 2لاکھ میں میرا گذارا نہیں ہوتا ؟
ہالینڈ کے وزیرِ اعظم کی سائیکل پر دفتر جانے کی مثالیں دیتا تھا،اب وزیرِ اعظم آفس سے چند منٹ کی مسافت پر دور اپنی نجی رہائش گاہ بنی گالا سے ہیلی کاپٹر پر آتا جاتا ہے،الیکشن سے پہلے سادگی کا درس دیتے ہوتے کہتا تھا عام کمرشل جہاز کا استعمال کروں گا ، سیکورٹی اور سرکاری پروٹوکول کی شدید مخالفت کرتا تھا لیکن اقتدار میں آ کر فل پروٹوکول انجوائے کر رہا ہے اور کمرشل جہاز میں سفر کرنے کا دعوی ابھی تک پورا ہوتا دکھائی نہیں دیا ۔

(جاری ہے)


 کہا وزیرِ عظم ہاوس کو یونیورسٹی بناوں گا،گورنر ہاوس پر بلڈوزر چلاوں گا لیکن اٹھارہ ماہ گزر جانے کے بعد بلند و بانگ مذکورہ دعوی ہی واپس لے لیا ۔ اسی صادق اور امین نے اقتدار میں آنے سے پہلے کہا کہ بھیک نہیں مانگوں گا، قرضہ لینے کے بجائے خود کشی کر لوں گا لیکن اقتدار میں آ کر عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ غیر ملکی قرضہ لیا ، کہا حکمران کرپٹ ہوں تو عوام ٹیکس نہیں دیتے لیکن جب خود اقتدار میں آیا تو ابھی تک مطلوبہ ٹیکس ہدف ہی پورا نہیں کر سکا،گویا خود کرپٹ ٹہرا ۔


 پہلے سینہ تان کر اعلان کیا کہ بے روزگاروں کوایک کروڑ نوکریاں دوں گا لیکن پھر خود ہی سرکاری نوکری کرنے پر تنقید کی ، بلکہ پہلے سے برسرِ روزگار پچیس لاکھ افراد کو بھی بے روزگار کر گیا ۔ کہا پچاس لاکھ مکان بنا کر دوں گا لیکن مسافر خانے اور لنگر خانے بنا کر دیئے اور کہا حکومت کے پاس مکان بنانے کے لیئے پیسے نہیں ،کہا پہلے اپنا اور پھرسب کا بلا امتیاز احتساب کروں گا،خود اور اپنے قریبی ساتھیوں سمیت نیب کو کرپشن کے کیسوں میں مطلوب ہوا لیکن احتساب کی چھری صرف اپنے مخالفین اور اپوزیشن کے گلے پر رکھی ۔

کہا جس پر کرپشن کا الزام ہو گا وہ میری حکومت میں نہیں ہو گا آج اس کی اپنی حکومت درجنوں کے حساب سے ایسے عہدیدار موجود ہیں جو مختلف مقدمات میں عدالتوں اور نیب کو مطلوب ہیں ۔
پہلے نجم سیٹھی پر انتخابی دھاندلی کے حوالے سے پر پینتیس پنکچروں کا الزام لگایا اور دعوی کیا کہ ان کے پاس ایک ٹیپ میں اس کے ثبوت بھی موجود ہے لیکن پھر کہا ان کا بیان تو محض "سیاسی بیان" تھا ۔

جسے اپنے چپڑاسی کے قابل بھی نہ سمجھا آج وہی انہیں مشورے دیتا ہے اور ان کی حکومت میں وزیرِ ریلوے بھی ہے ۔ یہ بھی دعوی کیا تھا کہ حکومت سازی کے لیئے آذاد امیدواروں کو ساتھ نہیں ملاوں گا لیکن آج وہ بھی حکومتی اتحادی ہیں ۔ پہلی حکومتوں کو بڑی کابینہ رکھنے کے طعنے دیئے اور مخالفت کی لیکن خود اس وقت اس کی اپنی حکومت میں مختصر کے بجائے پینتالیس افراد پر مشتمل بڑی کابینہ موجود ہے ۔


پہلے کہا دیانتدار اور ایماندار افراد پر مشتمل افراد پر کابینہ بناوں گا حکومت میں آنے کے بعد کہا فرشتے کہا ں سے لے کر آوں ؟، جنہیں پہلے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا اقتدار میں آنے کے لیئے اسی ڈاکو کو اپنا اتحادی بنایا ،میڈیا کی آذادی کا دعوی کیا کیونکہ وہ حکمرانوں کی کرپشن دکھاتا ہے لیکن اقتدار میں آ کر اپنی چوری اور ناکامی چھپانے کے لیئے قومی میڈیا پر وہ قدغن لگائی جو کبھی مارشل لاء کے دور میں بھی نہیں لگائی گئی،کچھ ہی عرصہ قبل سوشل میڈیا کی مخالفت کی لیکن اب اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو چلانے کے لیئے سرکاری کھاتے میں چالیس کروڑ روپے کی منظوری دی ہے ۔


پہلے کہا ’’نیا پاکستان‘‘ بناوں گا پھر نیو ریاستِ مدینہ بنانے کے دعوے کیئے لیکن عملاً ملکِ پاکستان کو بنانا ریاست بنا کر رکھ دیا’’ جہاں قانون سب کے لیئے‘‘ کی کوئی عملداری نہیں ، جمہوریت کی بالا دستی کی بات لیکن ملک کو عملاً مارشل لاء زدہ کر کے رکھ دیا،قومی اداروں کی خود مختاری کی بات کی لیکن تمام تر اداروں کو غیر متنازع بنا کر رکھ دیا، جیسے آجکل نیب حکومتی رکھیل ہے ۔

پہلے سرکاری اداروں کی نجکاری کی مخالفت کی اب اقتدار مین آ کر خود چالیس سے زائد قومی اداروں کی اونے پونے داموں نجکاری کر رہا ہے ۔ پہلے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی شدید مخالفت کی لیکن اقتدار میں آ کر اسے دوبارہ متعارف کروایا جس سے اس پر سرمایہ کاری کرنے والوں نے اربوں روپے کا کالا دھن حلال کیا ۔ ابتداء میں میٹرو بس کو جنگلا بس کہا اور اس کی مخالفت کی اور خود یہ حال ہے کہ اپنے حکومتی صوبے خیبر پختون خواہ میں چھہ سال سے ایک میٹرو بس منصوبہ مکمل نہیں ہو رہا ۔


کئی وزیرووں کو کرپشن کے الزام میں وزارت سے فارغ کیا لیکن پھر کچھ ہی دنوں بعد انہیں کوئی دوسری وزارت دے دی گئی ۔ اسد عمر،اعظم سواتی،فواد چوہدری،حماد اظہر، فیاض الحسن چوہان،بریگیڈئر اعجاز شاہ،غکام سرور،شہریار آفریدی،فردوس عاشق اعوان،اس کی بڑی مثالیں ہیں ۔ اقتدار میں آنے سے پہلے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کو ادارے کے لیئے زہرَ قاتل قرار دیا لیکن خود اقتدار میں آ کر فوج کے سربراہ کی ملازمت میں توسیع کر دی ۔


اقتدار میں آنے سے پہلے جس پارلیمنٹ پر دن رات لعنت بھیجی،جس کی کھلے عام تحقیر کی آج کل اسی پارلیمنٹ میں وزیرِ اعظم کی حیثیت سے آتا ہے،مقبوضہ کشمیر کو بھارت سے آذاد کروانے کا دعوی کیا لیکن اب صرف آذاد کشمیر کو بچانے کی باتیں کر رہا ہے،پہلے سابق وزیرِا عظم نواز شریف کے خلاف اس کے’’ مودی کا یار‘‘ ہونے کے نعرے لگوائے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اسی مودی سے ملاقات کرنے کے لیئے اسے کئی خطوط لکھے اور ٹیلی فون کیئے لیکن مودی کا جواب نہیں آیا ۔

اقتدار میں آنے سے پہلے سی پیک منصوبے کی کھلی مخالفت کی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اس منصوبے کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دیئے ۔
پہلے کہا یو ٹرن لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا لیکن اقتدار میں آ کر یوٹرن لینے کے نہ صرف ریکارڈ قائم کیئے بلکہ اس کے بے شمار فوائد بھی قوم کو بتائے ۔
خود ہی بتایئے کہ اب میں بولوں کہ نہ بولوں ؟ (احتشام الحق شامی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :