
"سوشل ازم، دانشور اور نظام"
بدھ 15 اپریل 2020

احتشام الحق شامی
جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ کارل مارکس اور ان جیسے خیالات اور نظریات رکھنے والے دیگر مغربی مفکرین کی پیدائش سے کئی دہائیوں قبل مسلمان معیشت دان اس اقتصادی سائنس اور نظریے کو دنیا کے سامنے پیش کر چکے تھے، جس کی حقیقت اور اہمیت کو جانتے ہوئے سامراج نے سرکاری تمام مذاہب کے مذہبی پیشواءوں ،دانشوروں اور اپنے زر خرید علماء کے زریعے اس ابھرتے ہوئے سیاسی شعور کو سلب کرنے کی کامیاب کوشش کی اور اس اقتصادی سائنس، اقتصادی نظام یا اس نظریئے کو ایک بے مذہب اور لا دین نظریہ قرار دلوا کر نا قابلِ عمل بنایا تا کہ دنیا میں طبقاتی تفریق یعنی امیرغریب کا فرق ختم نہ ہونے پائے، عام آدمی مزدور طبقہ کا استحصال ہوتا رہے اور یوں سامراج کے سرمایہ دارانہ نظام کو پروان چڑھا کر مفادات کی تکمیل ممکن ہوئی ۔
(جاری ہے)
آج جب سرمایہ دارانہ نظام مکمل طور پر تباہی سے دوچار ہے اور اندھے منہ گرا پڑا ہے تو سوشل ازم یعنی معاشی برابری کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ دیسی لبرلز اور لنڈے کے دانشوروں کو بتانا ہے کہ امام شاہ ولی اللہ ، مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے استاد شیخ الہند محمود حسن بھی ان علمی شخصیات اور اقتصادی مفکرین میں شامل ہیں جنہوں نے کارل مارکس اور ان کے ہم خیال دانشوروں کی پیدائش سے کئی برس قبل اپنے اپنے ادوار میں مزدوروں اور عام شہریوں کے معاشی حقوق کی حفاظت اور معاشی برابری کے لیئے مذکورہ اقتصادی سائنس متعارف کروائی تھی جسے بعد میں دیسی لبرلز اور لنڈے کے دانشوروں کے معاشی استادوں نے سوشل ازم کا نام دے کر اس نظریے پر اپنے نام کا لیبل لگا کر اپنے آپ سے منسوب کر لیا اور سوشل ازم کو ماسکو اور پیکنگ کا مرکز قرار دیے دیا ۔
یہی نہیں بلکہ بغداد، قرطبہ، وسطی ایشیا اور برِ صغیر کے مسلم سائنس دانوں نے علمِ فلکیات، ریاضی اور فلسفے سمیت دیگر علوم پر لاتعداد کُتب اور تصانیف لکھیں جنہیں بعد میں کارل مارکس جیسے انگریز دانشوروں اور ریسرچ اسکالرز نے مسلمانوں کی کئی کتب کو ردّ و بدل کے بعد اپنے نام کے ساتھ شاءع کیا اور کئی نے مسلمانوں کے سیاسی و سماجی نظریات کی بنیاد پر اپنی کُتب تحریر کیں ۔
مثال کے طور پر الجبر ا، الخوارزمی کی ایجاد ہے، لیکن اسے کسی اور سے منسوب کر دیا گیا ۔ کئی مسلمان سائنس دانوں کے نام بگاڑ کر اُن کی تصانیف اور کتب دوبارہ شاءع کی گئیں اور یہ تاثر دیا گیا کہ اُن کے مصنّفین غیر مسلم اور مغرب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ بو علی سینا کو ایبی سینا بنا دیا گیا ۔ یورپی فلاسفر ، ڈیک کارڈ کو یورپ میں ’’بابائے فلسفہ‘‘ کہا جاتا ہے اور انہوں نے اپنے تمام تر نظریات کی بنیاد مسلمان فلاسفر، ابنِ رُشد اور امام غزالی کے افکار پر رکھی ہے ۔ بحرحال اس طرح کے مغربی خود ساختہ دانشوروں اور سائنس دانوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے ,جیسے کہ دنیا کی تمام تر اہم ایجادات کے مسلمان موجد اور وہ سائنس دان اور حکماء جنہوں نے دنیا کی تقریباً ہر دریافت کے بیج بوئے لیکن بعد میں ان ایجادات کو سامراج اور اہلِ مغرب نے اپنے ناموں سے منسوب کر لیا ۔
ایسی تمام تر ایجادات کی ایک طویل فہرست موجود ہے، جسے گوگل پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں ایک ایسی ایجاد کا ذکر کرنا ضروری سمجھوں گا ۔ دورِ حاضر کی میڈکل ریسرچ نے حال ہی میں اپنا ایک بہت بڑا کارنامہ گنوایا ہے کہ "کرونا وائرس سے متاثرہ انسان کے صحت یاب ہونے پر اسی کے پلازمے یعنی خون کے سفید خلیئے سے دیگر متاثرہ مریضوں کو جلد مکمل صحت یاب کیا جا سکتا ہے" ۔
جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ کسی بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے اسی بیماری کے جراثیم کا ٹیکہ لگانے کا طریقہ سب سے پہلے ترکی میں شروع ہوا تھا ۔ ترکی میں برطانیہ کی سفیر کی اہلیہ یہ طریقہِ علاج 1724ء میں استنبول سے لندن لے کر گئی تھی ۔ ترکی میں بچوں کو گائے کی وائرس (cowpox) کے ٹیکے لگائے جاتے تھے تا کہ چیچک سے محفوظ رہ سکیں ۔
میں واضع کرتا چلوں کہ میرا سوشل ازم یا کسی اور ازم وغیرہ سے کسی قسم کا کوئی نظریاتی تعلق نہیں اور نہ ہی سوشل ازم سے کوئی لینا دینا ہے ،یہاں صرف اس بات پر توجہ اور دھیان دلوانے کی ضرورت مقصود ہے کہ آج کی نسل کو 10ویں صدی سے 14ویں صدی عیسوی کے جاہل اور تاریک یورپ سے ایران اور برِ صغیر کی درسگاہوں میں علم کے حصول کے لیئے آنے والے انگریزوں کے’’ نظریوں ‘‘ اور ’’ایجادات ‘‘ کو آشکارہ کرنے کی ضرورت ہے جو وہ اس خطے سے سیکھ کر گئے اور بعد ازاں ان پر اپنے نام کی مہر لگا تے رہے ۔
سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج، کسی بھی دیگر نظام پر کمرومائز نہیں کرتا ۔ چالیس برس کی روس امریکہ سرد جنگ بھی سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیئے ہی جنگ تھی ۔ دونوں فریق عیسائی تھے لہذا اس جنگ میں مذہب کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اس لیئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیا میں ’’ نظام‘‘ کی اہمیت کیا ہے ۔
آج بھی دنیا میں مختلف نظاموں کی سرد جنگ جاری ہے،روس کے بعد اب چین اور امریکہ آپس میں دست و گریباں ہیں جس کا تماشہ دنیا دیکھ رہی ہے ۔جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ سامراج اب اپنے لڑکھڑاتے سرمایہ دارانہ نظام اور اپنی بالا دستی جاری رکھنے کے لیئے اس وقت کسی نئے نظام کا سہارا لینے کی کوششوں میں سرگرداں ہے ۔ گو کہ اقوامِ عالم کے لیئے معاشی اور اقتصادی نظام تو چودہ سو سال پہلے سے دنیا میں موجود ہے جسے کسی بھی مذہب کو ماننے والے یا کوئی بھی قوم اپنے اوپر نافذ کر سکتی ہے لیکن اِس نظام میں چونکہ کسی قسم کی بالا دستی اور کسی پر غالب ہونے کا عنصر موجود نہیں اس لیئے سامراج کے ایجنٹ دنیا بھر کے مولوی ،پادری ، پنڈت اور دانشور اس پر ہمیشہ سے چپ سادھے ہیں ۔
اس وقت نہیں بلکہ اس سے قبل بھی پوری دنیا کے پر فرد کی پریشانی کا تعلق براہِ راست معیشت سے جڑا رہاہے، لیکن مجال ہے کہیں بھی فرد کی معاشی اور قوم کی اقتصادی مشکلات پر گفتگو کی جائے ۔ کسی بھی مذہب کا سرکاری مولوی ،پادری ، پنڈت اور دانشور، اپنے پیروکاروں کو گھنٹوں پر محیط خطاب میں سینکڑوں برس پرانے حالات اور واقعات سنا دے گا لیکن موجودہ سامراج کے ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام پر بولتا نظر نہیں آئے گا ۔
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیئے سامراج ہمیشہ لبرل سوچ کے حامل مسلمانوں کو پروموٹ کرتا ہے ۔ اسے عام لبرل طبقے یا افراد خواہ ان کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ وہ اس کا اثاثہ ہیں اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہیں ۔ سامراج کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ’’ اسلامک پولیٹیکل اکنامک سسٹم‘‘ ہے جو انصاف،برابری اور عدل کی بات کرتا ہے ۔ لیکن اسے ہائی جیک اور پھر اس میں جمع تفریق کر کے اسے سوشل ازم کا نام دیا گیا ہے .
جسے سرمایہ دارانہ نظام کے مذہبی ایجنٹ کافرانہ نظام قرار دے کر اس نظام کو اپنانے اور اس پر بات کرنے گناہِ کبیرہ قرار دیتے ہیں ۔ ( احتشام الحق شامی)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احتشام الحق شامی کے کالمز
-
حقائق اور لمحہِ فکریہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
تبدیلی، انکل سام اورحقائق
بدھ 26 جنوری 2022
-
’’سیکولر بنگلہ دیش اور حقائق‘‘
جمعہ 29 اکتوبر 2021
-
”صادق امینوں کی رام لیلا“
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
”اسٹبلشمنٹ کی طاقت“
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
ملکی تباہی کا ذمہ دار کون؟
بدھ 29 ستمبر 2021
-
کامیاب مزاحمت آخری حل
بدھ 1 ستمبر 2021
-
"سامراج اور مذہب کا استعمال"
جمعہ 27 اگست 2021
احتشام الحق شامی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.