آذاد کشمیر کے عام انتخابات اور حقائق‎‎

پیر 21 جون 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

آذاد کشمیر کی سیاست اور حکومت سازی میں سیاسی کارکنان اور ان کے لیڈروں سے زیادہ کردار پاکستانی اشٹبلشمنٹ کا رہا ہے۔اس بارے میں کوئی دوسری رائے موجود نہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ عرصہ تک اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو پاکستانی اشٹبلشمنٹ کی سب سے زیادہ تابعدار اور خدمت گزار سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز اور شرف حاصل رہا ہے۔

بلخصوص ڈیکٹیٹر ضیاء الحق مرحوم کے دورِ آمریت میں آزاد کشمیر کی سیاست میں مسلم کانفرنس کا ہی سکہ چلتا تھا۔ اس ضمن میں مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان کو ایک مرتبہ آذاد کشمیر کا وزیرِ اعظم بھی بنوا دیا گیا تھا،جس دوران سردار عتیق صاحب نے ”ملٹری ڈیموکریسی“ کی ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی تھی لیکن عوامی بالا دستی اور جمہوری نظام کے تحت مملکتیں چلانے کے موجودہ جدید دور میں مذکورہ اصطلاح کو پذیرائی نہیں مل سکی اور یہ اصطلاح نقارخانے میں کسی طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔

(جاری ہے)


خاکسار کا موضع مسلم کانفرنس سے زیادہ آذاد کشمیر کے تابعدار اور خدمات گزار وہ سیاسی گروپس اور سیاسی جماعتیں ہیں جو حصولِ اقتدار کے لیئے آجکل تا حدِ نظر قطار میں اشٹبلشمنٹ کی حمایت کی غرض سے خوش آمدی پھولوں کے ہار اٹھائے کھڑی ہیں۔ مسلم کانفرنسی قائدین ابھی بھی اس امید اور آس پر الیکشن مہم چلا رہے ہیں کہ شائد ان کی ماضی کی اشٹبلشمنٹ کی خدمت گزاری اور تابعداری ایک بار پھر رنگ لائے گی اور دو ماہ بعد آذاد کشمیر کا اقتدار ان کے حوالے کر دیا جائے گا۔

کوئی انہیں بتائے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔اس وقت پی ٹی آئی آذاد کشمیر کے سربراہ اور سابق وزیرِا عظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری بخوبی اور احسن طریقے اشٹبلشمنٹ کے تابعدارِ اوّل کا کردار ادا کر رہے ہیں اور وہ پاکستانی مقتدرہ کو کسی قسم کی شکایت کا موقع بھی فراہم نہیں کر رہے۔اس لیئے مسلم کانفرنسی،جماعتِ اسلامی کے حمایت یافتہ اور دیگر امید وارانِ اسمبلی جو الیکشن جیتنے کے لیئے ایجنسیوں کے سہارے کے منتظر ہیں ان کو مفت مشورہ ہے کہ اس مرتبہ وہ اپنے زورِ بازو پر الیکشن لڑیں۔

اس مرتبہ اشٹبلشمنٹ کا کندھا اور غیبی مدد بیرسٹر سلطان محمود چوھدری کے لیئے دستیاب ہے۔
 کٹھ پتلی وزیرِا عظم عمران خان سے صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد کی حال ہی میں کروائی گئی۔ اس ارینجڈ ملاقات کے باوجود آذاد کشمیر میں 25 جولائی کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی پاکستانی اشٹبلشمنٹ کی مدد سے اکثریت کے ساتھ حکومت میں ہو گی،دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن اور پھر پیپلز پارٹی۔

ایجنسیوں کی سابقہ تابعدار اور خدمت گزار مسلم کانفرنس کے حصہ میں اس مرتبہ بھی اپوزیشن لیڈری نہیں آئے گی۔ مسلم کانفرنسی زعماء تا حال اِس خوش فہمی کا بھی شکار ہیں کہ ریاست کی صدارت ان کے حوالے کر دی جائے گی مگر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے”مالکان“ کو قائل کر لیا ہے کہ مسلم کانفرنس سے بہتر ہے کہ کسی سیاسی ضرورت کے پیشِ نظر پی پی پی کا تعاون حاصل کر لیا جائے۔

    
آج تک کے حالات کے مطابق آذاد کشمیر میں حکومت منصوبے کے تحت پاکستانی اشٹبلشمنٹ کے سیاسی ونگ یعنی پی ٹی آئی کی ہی بنوائی جائے گی اور اس کی وجہ میں اپنے ایک سابقہ کالم میں عرض کر چکا ہوں، دوبارہ بھی دہرائے دیتا  ہوں کہ امریکی ایجنڈے کے تحت آذاد کشمیر کا پاکستانی صوبوں پنجاب اور خیبر پختوان خواہ میں انضمام اور اس مشن کو اشٹبلشمنٹ کے سیاسی ونگ پی ٹی آئی کے زریعے مکمل کرنا مقصود ہے،مطلب کشمیر ایشو کا مکو ٹھپنا ہے۔

یاد رہے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کئی گئی عمران خان کی ملاقات میں ہی مذکورہ سامراجی منصوبے پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔
عسکری جماعتوں، مسلم کانفرنس اور ٹاوٹ جماعتِ اسلامی کی اصل سرکاری ڈیوٹی تب شروع ہو گی جب ممکنہ طور پر آذاد کشمیر کے پاکستانی صوبوں میں انضمام یا اس ضمن میں اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد کے خلاف کیمو فلاج احتجاج شروع کروائے جائیں گے، مذکورہ جماعتیں اپنی پرانی تنخواہ پر خدمت گزاری کا فریضہ دوبارہ سر انجام دینا شروع کریں گی اور کشمیریوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کے چکر میں ان جماعتوں سے کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگوائے جائیں گے، مگرمچھ کے آنسو بھائے جائیں گے اور پی ٹی آئی حکومت(آذاد کشمیر) کے خلاف عوامی احتجاج شروع کروائے جائیں گے۔

”مقصد“ چونکہ حاصل ہو چکا ہو گا اس لیئے عین ممکن ہے کشمیریوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیئے تحریکِ انصاف حکومت کا جلد خاتمہ بھی کر دیا جائے اور آذاد کشمیر میں کوئی نیا حکومتی سیٹ اپ لایا جائے۔   

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :