وزیراعظم صاحب!غریب عوام کی فریاد بھی سن لیں

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

ملک میں اس وقت مہنگائ کا دور دورہ ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جنوبی ایشیائ ممالک میں مہنگائ کے معاملہ میں بھارت اور بنگلہ دیش کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اس وقت تقریباً ایک ہزار روپیہ روزانہ کی بنا پر بمشکل چھوٹے خاندان  کی دو وقت کی دال روٹی چل رہی ہے۔گویا بندہ مزدور کے اوقات تلخ ہیں اور دن بدن تلخ ہوتے جا رہے ہیں۔

کاش موجودہ حکمران نۓ پاکستان کا نعرہ لگانے سے پہلے کوئ لائحہ عمل بھی تیار کر لیتے۔
کاش موجودہ وزیراعظم بھی اقتدار سنبھالنے سے پہلے سابقہ حکمرانوں کی طرح عوام سے ایسے روایتی وعدے نہ کرتے جن کو پورا کرنا مشکل ہے اب۔
کاش وزیراعظم صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے عوام کو ریاست مدینہ کی مثالیں نہ سناتے اور اگر انہوں نے ایسا کرنا ہی تھا تو عملی طور پر اقتدار ملنے کے بعد ویسا کر کے دکھاتے۔

(جاری ہے)


مجھے ابھی بھی خان صاحب کے الیکشن سے پہلے کی چند تقریروں کے جملے ذہن میں گونج رہے ہیں جن میں خان صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پلک جھپکتے ہی پاکستان کے قرضے اتارنے کا اعادہ کر دیا اور پاکستانیوں کو اندرون ملک نوکریاں دینے کے علاوہ اس بات کا بھی عزم ظاہر کیا کہ جلد ہی بیرون ملک سے لوگ پاکستان نوکریاں لینے پاکستان آیا کریں گے۔

ملک کی اقتصادی حالت درست کرنے کے لیۓ دنیا کے مایہ ناز ماہر اقتصادیات عاطف میاں کی خدمات لینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر طرف دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور عوام کی اکثریت کا اس پر یقین کرنا حق تھا کیوں کہ پچھلے حکمرانوں کی اکثریت نے اتنا لوٹا ہے کہ کوئ بھی نیا شخص کوئ سپنا دکھاۓ تو وہ سہانا لگتا ہے۔اور اس مھں بھی کوئ شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی شخصیت ذاتی طور پر بھی ایک ایماندار اور کرپشن سے پاک شخص کے طور پر جانی جاتی ہے۔

مگر یہ کیا ہوا ؟پاکستان میں ابھی تک خان صاحب کے ویژن کے مطابق دودھ کی نہریں بہنا شروع کیوں نہیں ہوئیں؟
چلیں جناب دودھ کی نہریں نہ بہیں ہمیں کم و بیش مہنگائ کے معاملہ میں ہمارا پرانا پاکستان ہی لوٹا دیں۔
خان صاحب ماہر اقتصادیات عاطف میاں کو پاکستان کی  اقتصادی کمیٹی میں شامل کر کے مزہبی طور پر تعصب رکھنے والے لوگوں کا سامنا نہ کر سکے اور یوں ہمیں اسی وقت سے اندازہ ہونا شروع ہو گیا کہ نۓ پاکستان کا نعرہ عملی طور پر ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔

ابھی تک یہ صورتحال ہے کہ ڈالر کو پر لگے ہوۓ ہیں۔ اور مہنگائ دن بدن کم ہونے کی بجاۓ بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ملک میں اب وہی صاحب امور خزانہ یا معاشیات کے معاملات دیکھ رہے ہیں جو کہ مشرف کے زمانہ میں بھی اس کے انچارج تھے۔
حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ ذخیرہ اندازی کرنے والا طبقہ اشیاۓ روزمرہ کو ذخیرہ اندوزکر رہا ہے جس کی وجہ سے عارضی طور پر مہنگائ کا طوفان آیا ہوا ہے۔

اور اگر یہی حقیقت ہے تو ظاہر ہے کہ یہ سب خان صاحب کی حکومت کو ناکام کرنے کے لیۓ کیا جا رہا ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جناب اب آپ لوگ حکومت میں  ہیں اپوزیشن میں نہیں کہ یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیں گے۔اگر اس مافیا کو آپ نہیں کنٹرول کر سکتے تو کون کرے گا؟
عمران خان صاحب مجھے ابھی بھی آپ کے الفاظ یاد ہیں جب آپ اقتدار میں آنے سے پہلے کہا کرتے تھے کہ کپتان اچھا ہو تو وہ اپنی ٹیم(چاہے کمزور بھی ہو)کے ساتھ ملکراچھا کھیل لیتا ہے۔

جناب ہم آپ کے بارے میں تو اب بھی حسن ظن رکھتے ہیں کہ آپ نیک نیت اور اچھے کپتان ہیں۔آپ کب اپنی ٹیم کے ساتھ اچھا نتیجہ دیں گے؟کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی غربت ختم کرنے کا عزم غربت کو ختم کرنے سے قبل ملک سے غریب کو جان سے ہی ختم کر ڈالے۔
وزیراعظم صاحب آپ کو بذات خود مہنگائ پر قابو پانے کے لیۓ فوری اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ عوام نے تو پچھلے حکمرانوں کی لوٹ مار سے اکتا کر آپ کو اقتدار میں لانے کی خواہش کی تھی،کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا اپنی خواہش پر ماتم کرنے کو جی چاہنے لگ پڑے۔


کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش آپ اپوزیشن کے سربراہ ہی رہتے تو جو بھی وزیراعظم ہوتا اس کے پیچھے پڑ کر آپ عوامی مسائل تو حل کروانے والے ہوتے۔ابھی تو آپ وزیراعظم ہیں اور آپ سے مہنگائ کا جن قابو میں نہیں آ رہا جبکہ اپوزیشن کی اکثریت بھی بدقسمتی سے اس مسئلہ پر اسمبلی کے ایوانوں میں آپ کو لتاڑنے کی بجاۓ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے۔
آخر میں غریب عوام ہی رہ جاتی ہے جو ہمیشہ کی طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے لگی ہوئ ہے اور اس امید پر قائم ہے کہ شاید ان کے سیاسی رہبروں کو ان کا خیال بھی آ ہی جاۓ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :