وزیراعظم صاحب،مہنگائی پر توجہ فرمائیں

جمعرات 11 نومبر 2021

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

پاکستان میں مہنگائ کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے  اور خان صاحب کی سرکار جس تبدیلی کا وعدہ کر کے آئ تھی فی الحال تو سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے اور غریب طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہ اس تبدیلی کے بغیر ہی بھلے تھے۔برطانوی جریدے دی اکانومسٹ  نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کہ 42 ممالک میں مہنگائ کے حساب سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے اور یہ تناسب تقریباً 9 فیصد ہے۔


جبکہ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق یہ رپورٹ غلط ہے اور پاکستان مہنگائ کے  حساب سے 30 ویں نمبر پر ہے۔موجودہ حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ مہنگائ بڑھی ہے اور اس کی وجہ عالمی سطح پر کوویڈ کی وجہ سے مہنگائ میں اضافہ ہے۔اس میں کوئ شک نہیں کہ عالمی سطح پر مہنگائ میں اضافہ ہوا ہے مگر سب کچھ عالمی سطح سے جوڑ کر بری الذمہ ہو جانا بھی مناسب نہیں  ہے کیوں کہ عالمی سطح پر یومیہ،ماہانہ یا سالانہ اجرتیں بھی اس حساب سے زیادہ ہیں۔

(جاری ہے)

عالمی سطح پر بالخصوص برطانیہ، امریکہ، کینیڈ وغیرہ میں مزدور طبقے کے لیۓ کم ازکم اجرت کا معیار بھی مڈل کلاس طبقے کو  
مدنظر رکھ کر مقرر کیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے مالک کے لیۓ سخت  سزا یا جرمانہ ہے۔
ابھی یہ حالات ہیں کہ پاکستان میں اگر سبزی کی دوکان پر جا کر بڑھتے ہوۓ داموں پر سوال اٹھایا جاۓ یا بحث کی جاۓ  تو دوکاندار کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ یہ سب تبدیلی اور نیا پاکستان کے کرشمے ہیں۔

عمران خان صاحب ابھی تک ریاست مدینہ کی مثالیں دے کر لیڈر کو صادق اور امین قرار دے کر پاکستان کو ویسا بنانے پر ڈٹے ہوۓ ہیں مگر مجھے سمجھ میں نہیں آتا وہ ایسی مماثلت قائم کرتے ہوۓ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں کام کرنے والے تمام افراد ، تمام کابینہ بھی نیک، اور ایمان دار تھی۔کیا خان صاحب اپنے علاوہ اپنے نیچے کام کرنے والوں کی ایمان داری اور دیانت کا حلف اٹھانے کو تیار ہیں؟
یہ مان لیتے ہیں کہ سابقہ حکمران کرپٹ تھے اور خان صاحب ایمان دار ہیں مگر صرف ان کی ایمان داری سے نہ تو غربت کم ہو گی اور نہ ہی غریب کا گزربسر ممکن ہے۔

پاکستان میں موجودہ حکومت میں جب بھی مہنگائ میں اضافہ ہوا تو عوام کو یہ سننے کو ملا، کہ پاکستانیو تم نے گھبرانا نہیں ہے۔اب تو عوام یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وزیراعظم صاحب اب آپ ہمیں گھبرا لینے دیجئے کیوں کہ ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔    
اب اگر مہنگائ کی وجوہات کا جائزہ لیں تو اس میں کئ عوامل آ جاتے ہیں جیسے کہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ، پاکستان پر قرضوں کے بوجھ کو اتارنے کے لیۓ مہنگائ کر کے عوام پر بوجھ ڈالنا،مقامی سطح پر جو مصنوعات  کسان یا فیکٹری سے عوام تک پہنچتی ہے وہ ڈائریکٹ آنے کی بجاۓ یا ڈائریکٹ کسی ایک سپر سٹور تک پہنچنے کی بجاۓ کئ ہاتھوں سے گزر کر قیمت میں اضافہ کرتے کرتے پہنچتی ہے۔

اس کے علاوہ بعض اوقات مارکیٹ کمیٹیاں یا دیگر حکومتی نمائندے قیمتوں پر قابو پانے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئ شک نہیں کہ دیگر حکومتی ادوار میں بھی مہنگائ ہوتی رہی ہے مگر عوام تو خان صاحب کو تبدیلی اور نیا پاکستان کے نعرے کی وجہ سے اقتدار میں لائ تھی۔عوام نے تو خان صاحب کے ان بیانات اور کنٹینر کی تقریروں پر اعتماد کیا تھا جس میں وہ دعوے کرتے تھے کہ ان کی حکومت آتے  ہی  گویا کوئ ایسی  جادو کی چھڑی چلے گی کہ  ملک میں دودھ کی نہریں بہیں گی،ہر شخص خوشحال ہو گا اور عوام کو ایسا پاکستان ملے گا جو مہنگائ،رشوت،کرپشن اور نااہل افراد سے پاک ہو گا ۔


وزیراعظم صاحب کو سمجھنا ہو گا کہ عوام کی ان سے توقعات بہت زیادہ ہیں اور اس کا سہرا بھی خود ان کے سر ہے کیوں کہ انہوں نے عوام کو ایسے سہانے خواب دکھا دیے تھے کہ گویا وہ نۓ ہیں سیاست میں اور ان پر اعتبار کر کے عوام بالکل بھی نہیں پچھتائیں گے کیوں کہ وہ  اقتدار میں آتے ہی ایک فلاحی ریاست بنا دیں گے۔اور یہ معصوم عوام ہمیشہ کی طرح  اس دفعہ بھی وعدوں پر یقین کر بیٹھی اور ابھی تک ان کے پورا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔


وزیراعظم صاحب ہمیں آپ کی ایمانداری اور نیک  نیتی میں کوئ شک نہیں مگر  جب تک آپ کے اردگرد نااہل اور بے ایمان افراد کا مجمع لگا رہے گا اور جب تک آپ  مہنگائ پر قابو پانے کے لیۓ کوئ پالیسی وضع نہیں کریں گے تب تک یقین رکھیں کے آپ کا دوبارہ اگلی دفعہ اقتدار میں آنا بہت مشکل ہو گا  کیوں کہ عوام بہت معصوم ہے وہ آپ کے دیے ہوۓ تازہ زخموں کا مداوا پہلے سے آزماۓ افراد میں ڈھونڈنے نکل پڑے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :