نیا سال اور کرونا کی نئی قسم

بدھ 5 جنوری 2022

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

سب سے سے پہلے تو سب کو نیا سال مبارک ہو۔
نئے سال  میں داخل ہوتے ہی مختلف لوگوں کی جانب سے مبارکبادوں کے علاوہ کئ قسم کے عہد بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے میں ملے جیسے کہ، میں اچھی نوکری حاصل کروں گا، میں سگریٹ چھوڑ دوں گا، میں اس دفعہ کلاس میں پوزیشن لوں گا، میں اپنی محبت حاصل کر کے رہوں گا وغیرہ وغیرہ ۔مگر میری کسی بھی ایسے عہد پر نگاہ نہیں پڑی  جس میں یہ کہا گیا ہو کہ  “میں نہ صرف اپنی بلکہ اہل خانہ کی بھی ویکسین مکمل کرواؤں گا”۔


یہاں اس  نامکمل عہد کا تذکرہ اس لیۓ کرنا پڑا کیوں کہ نۓ سال کے ساتھ ہی کرونا کی نئی قسم ایمکرون  بھی  انسانوں میں زیادہ تباہی کے ولولے کے ساتھ  اس سال میں داخل ہو چکی ہے۔
اس نئی قسم کے وار امریکہ و یورپ سمیت دنیا کے کئ ممالک میں زور و شور سے جاری ہیں اور اس کے پھیلاؤ کی رفتار بھی پچھلی اقسام سے زیادہ  تیز ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ میں اس قسم کے آتے ہی یومیہ دو لاکھ سے زیادہ کیس آ رہے ہیں اور اس میں کمی آنے کی بجاۓ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اس میں کوئ شک نہیں کہ جن لوگوں نے بالکل بھی ویکسین نہیں لگوائ وہ اس کے رگڑے میں جلد آ جائیں گے۔اس لیۓ جن لوگوں نے تو ویکسین کی دونوں خواراکیں لگوا لی ہیں اور ان کو چھ مہینہ کا عرصہ بیت گیا ہے تو ان کو چاہیے کہ تیسری اضافی خوراک یعنی  بوسٹر شاٹ بھی لگوا لیں۔اس میں کوئ شک نہیں کہ ایمیکرون کے وار بغیر ویکسین والوں پر زیادہ ہیں اور اگر ویکسین شدہ بھی اس کی لپیٹ میں آ جاۓ تو اس پرحملہ کی شدت کم رہتی ہے اور  عموماً اسپتال جانے کی بجاۓ گھر پر ہی آرام آ جاتا ہے۔


عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے ایک پریس کانفرنس میں  ایک اور کرونا سونامی سے خبردار کیا جس کی بنیادی وجہ وائرس کی نئی قسم ہے۔اس وقت تقریباً ایک ملین کے قریب افراد یومیہ دنیا بھر میں اس موذی وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔اس کی ایک بنیادی وجہ ہماری بے احتیاطی، ماسک کے استعمال میں لاپروائی کا مظاہرہ اور ویکسین کی عدم دستیابی یا ویکسین کے لگوانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ ہے۔

اس وائرس کے شکار میں بوڑھوں سے لے کر نوجوانوں اور بچوں تک سبھی شامل ہیں۔
یہاں پر امیر اور وسائل رکھنے والے ممالک کی بے حسی کی بات کرنا بھی ضروری ہے ۔امیر ممالک ویکسین کا ذخیرہ خود دباۓ بیٹھے ہیں اور  اس کو فروخت کرنے کے چکر میں ہیں مگر وہ غریب ممالک جو اس کو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے مثلاً کئی افریقی ممالک وغیرہ وہ اس وائرس سے بچاؤ سے بہت دور ہیں ۔

اگرچہ  ایمیکرون کی شدت سابقہ اقسام سے بہت کم ہے مگر اس کے پھیلاؤ کی رفتار اور دہشت ذیادہ ہے۔اور کمزور قوت مدافعت والے شخص کے لیۓ پھر بھی آسانی سے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ویکسین نہ  لگوانے والے کچھ افراد تو وہ ہیں جو کہ ان غریب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں اس کی عدم دستیابی ہے جب کہ دوسری قسم ان افراد کی ہے جو  وسائل رکھنے والے ممالک میں مفت ویکسین مہیا ہونے کے باوجود نہیں لگوا رہے اور  کبھی کہتے ہیں کہ  اس کو لگوانے کے  نقصانات زیادہ ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ لگوا کے بھی کرونا ہو جانا ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ اس ویکسین کے  ذریعے حکومت ہمارے جسم میں ایسی چپ داخل کرے گی جس سے وہ ہمیں ہر پل ٹریک کرتی رہے گی۔

غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔
ہمیں انفرادی اور مجموعی طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وائرس سے بچاؤ اسی صورت ممکن ہے جب ہم مفروضات اور افواہوں کی بجاۓ سائنس کی سنیں گے۔امیر ممالک کو بھی غریب ممالک کا احساس کرتے ہوۓ ویکسین کی فی الفور فراہمی کرنی چاہیۓ کیوں کہ یہ ایک عالمی وبا ہے جس  کا خاتمہ عالمی سطح پر متحد ہو کر اور ایک دوسرے سے تعاون کر کے ہی ممکن ہے۔جب تک دنیا کی اکثریت ویکسین شدہ نہیں ہو جاتی تب تک دنیا  کے اس وبا کی زد میں رہنے کا قوی امکان موجود ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :