لاہور کی آلودگی اور اس کے اثرات

بدھ 1 دسمبر 2021

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

ماحولیاتی آلودگی اس وقت وطن عزیز پاکستان کا عمومی اور پنجاب کے چند بڑے شہروں بالخصوص لاہور کا خصوصی مسئلہ بنا ہوا ہے۔یہ مسئلہ ترقی یافتہ ممالک جیسے کے امریکہ،کینیڈا،برطانیہ وغیرہ میں کافی حد تک قابو میں ہے کیوں کہ  ان ممالک میں شعور اور وسائل کو عوام کی جانیں بچانے کے لیۓ بروۓ کار لایا جاتا ہے۔ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اور ہمارے ہاں بھی یہ آلودگی کم ہونے کی بجاۓ ہر سال بڑھتی ہوئ نظر آتی ہے۔


ہمارے ہاں لاہور کی یہ صورتحال ہے کہ  ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ایک دھند کی چادر سی تنی دکھائ دیتی ہے جس کو  سموگ کا نام دیا گیا ہے۔اس کی وجہ سے پچھلے کچھ ہفتوں سے لاہور کبھی دنیا بھر کے آلودہ شہروں میں پہلے نمبر پر آ جاتا ہے اور کبھی دہلی یا ڈھاکہ آجاتے ہیں مگر لاہور کی پوزیشن آلودہ شہروں میں پہلے دو نمبروں  میں سے کسی ایک  پر بدستور قائم ہے۔

(جاری ہے)


اس آلودگی کی بڑی وجہ گاڑیوں میں غیر معیاری تیل کا استعمال،فیکٹریوں کا دھواں اور فضلہ، درختوں کی کمی اور فصلوں کی کٹائ کے بعد بچے کھچے مواد کو آگ لگانا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے   دنیا کے دیگر ممالک سے لاہور کے باسیوں کی مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ایک برطانوی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس امر کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ  ہوا کی گھٹیا کولٹی کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔


اس خدشے کا اظہار اس  سے اگلے دن کیا گیا جب لاہور کی ہوا کا کوالٹی انڈیکس 598 تھا جب کہ 300 سے  زیادہ کا کوالٹی انڈیکس صحت کے لیۓ غیر معیاری اور خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔لاہور جو ایک طرف باغوں کا شہر کہلاتا ہے مگر آج کل وہ آلودہ شہروں میں سرفہرست ہے۔اس آلودگی کی وجہ سے شہریوں کی اوسط زندگی کی شرح بھی 5 سے 6 سال ان کی مجموعی زندگی سے گھٹ چکی ہے اور دیگر بیماریاں اس کے علاوہ ہیں۔


اس صورتحال میں  تعلیمی اداروں میں بھی کچھ روز کی چھٹیاں کی گئ ہیں۔اور کچھ  انتظامیہ کے افراد اس آلودگی کی وجہ فیکٹریوں سے نکلنے والے فضلے اور دھویں کو قرار دے رہے ہیں۔بدقسمتی سے ماسک کا استعمال بھی دیکھنے میں کم نظر آیا ہے۔لاہور کے باسیوں کو چاہیۓ کہ ماسک کا استعمال زیادہ سے زیادہ رکھیں،اس کی ایک وجہ تو کرونا بھی ہے اور دوسری وجہ اب یہ  آلودگی ہے۔

حکومتی ذمہ داران کو بھی  انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کو سنجیدہ لینا ہو گا اور باغات کے شہر  سے آلودگی کم کرنے کے لیۓ درختوں کی کٹائی روکتے ہوۓ،زیادہ درختوں کے لگانے کو فروغ دینا ہو گا۔اس کے علاوہ گاڑیوں  اور فیکٹریوں کے دھوئیں پر بھی قابو پانا ہو گا۔ فصلوں کی کٹائ کے بعد بچے کھچے مواد کو جلانے  سے روکنے کے لیۓ بھی سخت لائحہ عمل اپنانا ہو گا۔


اس آلودگی کے روکنے کے لیۓ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔اس میں انفرادی طور پر ہر شخص اور مجموعی طور پر حکومت اور انتظامیہ ذمہ دار ہے۔اگر ہم اس آلودگی کو روکنے میں ناکام رہے تو  اپنی نسلوں کے  مجرم ٹھہریں گے اور اپنے ساتھ ان کی زندگیوں سے بھی کھیلنے والے ہوں گے۔اس میں یقیناً  زیادہ اہم کردار حکومت وقت کو ادا کرنا ہو گا اور زبانی دعووں کی بجاۓ ہنگامی بنیادوں پر  فضائی آلودگی کے تدارک کے لیۓ   عمل کرنا ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :