پنڈورا لیکس کا ڈھنڈورا

بدھ 13 اکتوبر 2021

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

پانامہ لیکس کے بعد اب ہر طرف پنڈورا لیکس کا ڈھنڈورا مچا ہوا ہے-تقریباً ایک کروڑ انیس لاکھ کے قریب فائلوں پر مشتمل پنڈورا پیپرز  اسکینڈل میں 200 سے زائد ممالک کی 29000 آف شور کمپنیوں کا راز افشاں کیا گیا جن کی ملکیت 45 ممالک سے تعلق رکھنے والی 130 ارب پتی شخصیات کے پاس ہے۔اور ان کمپنیوں میں چھپے اثاثوں کی مالیت 5.6 ٹریلین امریکی ڈالر سے لے کر 32  ٹریلین امریکی ڈالر کے قریب ہے۔


ان چھپی ہوئ کمپنیوں میں دنیا کے کئ ممالک کی  نامور  شخصیات مثلاً برطانیہ کے ٹونی بلئیر،دبئی کے محمد بن راشد وغیرہ کے نام ہیں مگر صرف پاکستانیوں کی ہی بات کی جاۓ تو  سات سو(700) کے قریب پاکستانی بھی اپنی کمپنیوں کی وجہ سے پنڈورا لیکس کا حصہ ہیں۔اس سے پہلے تحریک انصاف اپوزیشن کا حصہ تھی جب پانامہ لیکس کا شور مچا تھا اور اس شور کا خاتمہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے اور نواز شریف کی نااہلی پر جا کر ہو ا تھا۔

(جاری ہے)


اب تحریک انصاف کی حکومت ہے اور شومئی قسمت کہ پنڈورا لیکس میں چند حکومتی وزرا کے نام بھی زیرگردش ہیں مثلاً فیصل واوڈا، مونس الہی  اور شوکت ترین وغیرہ۔اس کے علاوہ ملک کا سب سے زیادہ بجٹ اپنے نام  رکھنے والے ادارے یعنی فوج کے چند اہم ریٹائرڈ افسران اور ان کے اہل خانہ کے نام بھی اس لیکس کی زینت ہیں۔
اس بات میں تو کوئ شک نہیں کہ  جب چھپا کر ایسی کمپنیاں بنائ جائیں تو ان کی اکثریت اس پیسے کی ہوتی ہے جو  اپنی عوام سے لوٹ کر یا ملکی اداروں سے چھپا کر رکھا ہوتا ہے۔

اگر پاکستان کی ہی صرف بات کی جاۓ تو پاکستان کا شمار ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے اور جب یہاں  سے دولت لوٹ کر دوسرے ممالک میں چھپا ئ جاۓ گی تو ملک میں غربت  اور زیادہ بڑھے گی جب کہ وہ  لٹیرے اپنے اثاثے بڑھاتے جائیں گے۔اس لوٹ مار کو روکنے کے لیۓ بدقسمتی سے عالمی سطح پر بھی کوئ خاص قانون سازی نہیں ہے کیوں کہ زیادہ تر اثاثے غریب ممالک سے امیر ممالک میں منتقل ہوتے ہیں اس لیۓ امیر اور طاقتور ممالک اس پر چپ سادھ لیتے ہیں۔


پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اس نعرے کی  وجہ سے ہی منتخب ہوئ تھی کہ ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ کر کے   لوٹی ہوئ دولت کو دوسرے ممالک سے واپس لیا جاۓ گا۔ابھی تک تو اس سلسلے میں کوئ خاص پیشرفت ممکن نہیں ہو سکی اور پانامہ لیکن میں بھی سواۓ نواز شریف کے باقی کسی پاکستانی کا کوئ خاص احتساب ہوتا نظر نہیں آیا۔اب پنڈورا لیکس تو پانامہ سے بھی بڑا اسکینڈل ہے جا میں بیوروکریٹ،سیاست دان اور فوجی افسران تک کے نام شامل ہیں۔


ابھی تک کی اطلاعات تو یہی ہیں کہ حکومتی وزیروں میں سے جن کے بھی نام سامنے آۓ ہیں ان سب نے اپنے ان اثاثوں کو جائز قرار دے دیا ہے جو کہ چھپا کر دوسرے ملک میں رکھے گۓ تھے۔اگر عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو کیا وزیروں کے اتنا کہنے سے خان صاحب نے ان کی بات مان لینی تھی؟ ہرگز نہیں بلکہ خان صاحب نے ان کے استعفوں اور تحقیقات پر  زور دیتے رہنا تھا۔

ابھی کچھ یہ بھی کہنا چاہیۓ کہ اپوزیشن میں بھی اتحاد نہیں ہے اس لیۓ وہ بھی ایسے قومی معاملات پر چپ سادھ لیتی ہے اور اپنے پارٹی لیڈران کی  نااہلی اور مقدمات کے دفاع میں متحد ہو جاتی ہے۔
پنڈورا لیکس میں آۓ پاکستانی ناموں کی تحقیقات کے لیۓ وزیراعظم نے تین رکنی سیل تشکیل دیا ہے جو یہ جائزہ لے گا کہ ان افراد نے ٹیکس دے کر جائز آمدن سے یہ اثاثے منتقل کیۓ تھے یا پھر ٹیکس چوری کر کے یہ اثاثے بناۓ تھے۔

اس کے علاوہ اس امر کا بھی جائزہ لیا جاۓ گا کہ  یہ اثاثے منی لانڈرنگ کر کے تو نہیں بناۓ گۓ تھے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کم وبیش ہر اہم ادارے کے افراد کے اثاثوں کا ذکر موجود ہے تو کیا یہ افراد آزادانہ تحقیقات کر سکیں گے یا پھر اپنے بھائ بندوں کو بچانے میں لگ جائیں گے۔
کیا عمران خان صاحب پنڈورا لیکس میں بھی ویسی ہی سنجیدگی دکھائیں گے اور واویلا مچائیں گے جیسا انہوں نے پانامہ لیکس کے وقت مچایا تھا؟اگر اب بھی  سب ملوث افراد کے اثاثوں کی چھان بین کر کے اس کی تحقیقات کو عوام کے سامنے منظر عام پر نہ لایا گیا تو خان صاحب کا کرپشن فری پاکستان کا نعرہ محض ایک سیاسی نعرہ ہی تصور ہوتا رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :