
پیارے دادا جی کے نام
منگل 28 ستمبر 2021

احتشام اعجاز بھلی
(جاری ہے)
گھر کے حالات کی وجہ سے تقریباً سترہ (17) برس کی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گۓ۔ان دنوں دوسری عالمی جنگ کا دور دورہ تھا اور متحدہ برصغیر پر گورے کا قبضہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ کی طرف سے فوج میں شامل ہوۓ۔فوج میں بھرتی ہونے کے بعد آپ کو عالمی جنگ میں برطانیہ کی طرف سے دنیا کے مختلف ملکوں بالخصوص شام،عراق،مصر وغیرہ میں جانے کا بھی اتفاق ہوا۔
ایک دفعہ وہ بتانے لگے کہ ان کی فوجی ذمہ داریاں ان کے افسران کو بہت پسند تھیں۔ایک گورے کرنل نے انہیں کہا کہ کاش وہ دس جماعتوں تک پڑھے ہوتے تو ان کی بطور کمیشن افسران میں شمولیت ہر صورت ہو جاتی۔پاکستان کے بننے کے بعد وہ پاکستانی فوج کا حصہ بنے اور مختلف محاذوں پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔جن میں 1948 کی جنگ، 1965 اور 1971 کے معرکہ جات شامل ہیں۔
فوج میں ملک کا تحفظ کرنے کے علاوہ آپ کھیلوں میں بالخصوص دوڑ میں آپ اکثر دوسروں پر سبقت لے جاتے تھے۔فوج میں آپ کو بعض تعریفی سرٹیفکیٹس اور تمغہ جات سے بھی نوازا گیا۔ان کو اللہ پاک نے صحت سے نوازا تھا جو کہ آج کل بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔میں نے ان کو 92 برس کی عمر تک سائیکل پر میلوں کا سفر کرتے دیکھا ہے اور وہ یہ سائیکل کا سفر محض خود کو چاق و چوبند رکھنے کے لیۓ کرتے تھے۔یہ سب یقیناً ان پراللہ پاک کے خاص فضل کا نتیجہ تھا۔وہ پاکستانی فوج سے بے حد مخلص تھے کہ کبھی بھی فوج کے خلاف کوئ بات سننا پسند نہیں کرتے تھے۔
انہیں صدر ایوب کے دور میں فوج نے غالبا سستے داموں کچھ زمین سے نوازا ۔ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے پاس کچھ رقم موجود تھی۔ایک دفعہ مجھے بتانے لگے کہ ان کے پاس ایک چوائس موجود تھی۔میں نے پوچھا کہ کیسی چوائس؟بولے بیٹا میرے پاس یہ چوائس تھی کہ یا تو میں اپنی رقم سے کچھ اور زمین خرید کر اس میں اضافہ کرتا اور بیٹوں کو کہتا کہ تم لوگ اپنی زمین پر کام کرو گے اور یا میں بیٹوں کی پڑھائ میں رقم صرف کرتا،تو میں دوسری چوائس کو ترجیح دی کیوں کہ اولاد کی تعلیم پر روپیہ خرچ کرنا ہی اصل انویسٹمنٹ ہے۔
ان کی اردو کی خطاطی کا بھی کوئ جوڑ نہیں تھا اور اکثر کچہریوں کا سامنا کرنے والے گاؤں کے لوگ ان کے پاس مشورے کے لیۓ اور اردو کی درخواست لکھانے کے لیۓ آتے تھے۔گاؤں کے نمبردار کی حیثیت سے وہ گاؤں والوں کے کام آنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے تھے۔
وہ 92 برس کی عمر تک روزانہ کی بنیاد پر ڈائری ضرور لکھتے تھے۔ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ آپ کی صحت والی زندگی کا راز کیا ہے تو بولے کہ میں خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور اگر کوئ نقصان ہو جاۓ تو اس پر جی جلانے اور پریشان ہونے کی بجاۓ یہ سوچتا ہوں کہ مستقبل میں اس سے کیسے بچنا ہےاور کیسے جینا ہے۔
وہ ایک عاجز انسان تھے جو کسی ضرورت مند کے ساتھ زمین پر بیٹھنا پڑتا تو وہاں بھی بیٹھ جاتے اور اس کے کام آنے کی کوشش کرتے۔ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے چاہے ان کی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔مجھے کہا کرتے تھے کہ میں نے کبھی کسی سے مانگ کر کچھ نہیں لیا بلکہ دینے کی کوشش ہی کی ہے چاہے وہ اولاد ہی کیوں نہ ہو۔اپنی آخری عمر میں اس بات سے بھی خوشی محسوس کرتے تھے کہ ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد بھی تعلیم حاصل کر کے خوشحال زندگی بسر کر رہی ہے۔وہ یقیناً ایک غازی اور محب وطن انسان تھے۔
اللہ پاک ان کی مغفرت فرماۓ اور ہر طرح کی آسانیاں پیدا کرے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احتشام اعجاز بھلی کے کالمز
-
آمرانہ سوچ کی حامل سیاسی جماعتیں
اتوار 6 فروری 2022
-
نیا سال اور کرونا کی نئی قسم
بدھ 5 جنوری 2022
-
لاہور کی آلودگی اور اس کے اثرات
بدھ 1 دسمبر 2021
-
وزیراعظم صاحب،مہنگائی پر توجہ فرمائیں
جمعرات 11 نومبر 2021
-
وینکؤور - سیاحوں کی جنت
جمعہ 29 اکتوبر 2021
-
پنڈورا لیکس کا ڈھنڈورا
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
پیارے دادا جی کے نام
منگل 28 ستمبر 2021
-
عبدالستار ایدھی مسیحائے انسانیت
بدھ 14 جولائی 2021
احتشام اعجاز بھلی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.