پاکستانی فلم جگت کی "لیڈی نصیرالدین شاہ" ؟

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Aleem Osman

علیم عُثمان

سُوپر ؍ہٹ پنجابی فلم "ہیر رانجھا" مُکمل ہو چُکی تھی . لاہور کے فلم سٹوڈیو "شاہ نور" میں تین لیجنڈ شخصیات جمع تھیں جن میں فلم کے ڈائریکٹر مسعود پرویز ، موسیقار خواجہ خورشید انور اور نغمہ نگار احمد راہی شامل تھے . "ہیر رانجھا" کا سکرپٹ اور مکالمے بھی احمد راہی جیسی قد آور ادبی شخصیت نے لکھے تھے جنہیں پنجابی کا منیر نیازی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ، خواجہ خورشید انور آئی سی ایس یعنی متحدہ ہندوستان کے "سی ایس ایس" پاس تھے جبکہ مسعود پرویز گورنمنٹ کالج لاہور سے فزکس میں ایم ایس سی تھے .
احمد راہی بولے "ہیر دے رول وچ جنہی فردوس پھبی اے ، شید ہیر آپ وی اینہی نہ پھبدی" (ہیر کے کردار میں فردوس بیگم جس قدر جچی ہیں ، ہیر خود یہ کردار ادا کرتی تو شائد وہ بھی اتنی خوبصورت نہ لگتی) مسعود پرویز نے کہا "صحیح آکھیا جے" (آپ نے صحیح کہا) خواجہ خورشید انور جو عام طور پر بہت کم بولتے تھے اور chain سموکر تھے ، سگریٹ کا کش لے کر گویا ہوئے "راہی صاب ، تہاڈی گل سولہ آنے صحیح اے" (راہی صاحب ! آپ کی یہ بات سو فیصد درست ھے)
یہ واقعہ احمد راہی نے میرے دوست احسان بزمی کو خود سنایا تھا جو آخری برسوں میں راہی صاحب کے بہت قریب رہے . . اور" ہیر رانجھا" ریلیز ہونے کے بعد ایک دنیا یہی کہہ رہی تھی اور آج تک کہہ رہی ھے . فردوس بیگم کے ایک فیملی فرینڈ ، آج کل سویڈن میں مقیم پرانے پاکستانی صحافی مسعود قمر کے بقول "ہیر رانجھا کی کہانی اگر حقیقی ہے بھی تو یہ صدیوں پرانی بات ہے جو اب ایک شاعر کے ذرئیعے سامنے ا رہی ہے۔

(جاری ہے)

فلم کے ہدایتکار نے زندہ لوگوں سے نہیں یہ سب ایک شاعر کی کتاب سے لیا اور آگے فردوس صاحبہ کو پیش کیا جس کو فردوس صاحبہ نے اسطرح پیش کیا کہ آج تک کوئی ایسا ہیر کو پیش نہیں کر سکا۔ جس   طرح بہت سے شاعروں ن ہیر رانجھے کے قصے کو لکھا مگر جو وارث شاہ موتی پرو گیا کوئی اور نہیں پرو سکا۔ اسی طرح بھارت پاکستان کی بہت سی اداکاراؤں نے ہیر کا کردار ادا کیا مگر ہیر کا کردار جو فردوس جی نے ادا کیا، مجھے ی کہنے کی اجازت دی جائے کہ اگر کوئی حقیقت میں ہیر کے کرار کے لڑکی تھی تو وہ فردوس سے زیادہ خوبصورت نہیں تھی اور نہ کوئی اداکارہ فردوس سا کردار ادا کر سکی ہے"
ان کا کہنا ہے" جس طرح انڈیا میں بننے والی فلم "غالب" میں نصیرالدین شاہ نے اپنے فنِ اداکاری سے غالب  کے کردار کو امر کر دیا ہے اسی طرح فرودس صاحبہ نے پاکستانی فلم "ہیر  رانجھا" میں ہیر کے کردار کو امر کر دیا ہے مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔

غالب کو جسمانی طور پہ جدا ہوئے ابھی کوئی بہت لمبا عرصہ نہیں گزرا۔ ابھی کچھ لوگ ہیں جن کے دادا ل نانا نے غالب کو پڑھتے، پیتے، مشاعروں میں جاتے دیکھا تھا۔ غالب کے لباس کا انداز انکے بات کرنے کسی پہ طنز کرنے، چوکڑی کھیلنے کے انداز سے واقف تھے۔ فلم کے ہدایتکار گلزار نے ان سب سے مل کر اور ان سب کو نصیر الدین شاہ سے ملوایا تاکہ نصیرالدین شاہ  ویسا ہی کر پائے جیسا غالب کرتے تھے مگر فردوس کو ایسی کوئی سہولت میسر نہیں تھی"
"ہیر" کے کردار کو اپنی لاجواب پرفارمنس سے امر کردینے والی اداکارہ فردوس بیگم نے ویسے بھی پاکستانی فلم انڈسٹری پر اس کے اور پنجابی فلموں کے عروج کے زمانے میں کسی ملکہ کی طرح راج کیا ، بالخصوص رومانٹک فلموں کی یہ شہزادی کسی بھی فلم میکر / ڈائریکٹر کی پہلی چوائس ہوتی تھی ، پنجابی فلم نگر میں فردوس بیگم کا اسی طرح طوطی بولتا تھا جیسے ہیروز میں اداکار اکمل کا .. اکمل اور فردوس کی جوڑی کو کسی بھی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا مگر  .. بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ذاتی زندگی میں بھی ایک رومانٹک شخصیت کی مالک فردوس بیگم کو اداکارہ بننے یا فلموں میں کام کرنے کا ذرا بھی شوق نہیں تھا  . .
مسعود قمر بتاتے ہیں "فردوس صاحبہ کو فلموں میں کام کرنے کا رتی بھی شوق نہیں تھا۔

یہ انکی پھوپھی جان تھی جن کی یہ خواہش تھی کہ کوثر پروین فلموں میں کام کرے اور کوثر پروین اپنی پھوپھو جی کو ماں کا درجہ دیتی ہیں اور پھر فردوس  صاحبہ فلم سکرین پہ ایسی آئیں کہ ملک کے کسی نہ کسی شہر کے کسی نہ کسی سینما کی سکرین پہ انکی فلم چل رہی ہوتی تھی"
مسعود قمر فردوس بیگم کے حوالے سے اپنی یاد داشتیں share کرتے ہوئے کہتے ہیں"کسی نامور شخصیت، ادیب، شاعر، اداکارہ، رقاص، کرکٹر، سیاستدان پہ لکھنا بہت آسان ہوتا ہے۔

اسکی ساری زندگی آپکے سامنے ہوتی ہے بلکہ اسکی زندگی کے وہ گوشے بھی جو دنیا سے اوجل ہوتے ہیں لکھنے والے وہ بھی لکھ دیتے ہیں تاکہ پڑھنے والے لکھنے والے سے مرعوب ہو سکیں مگر کسی ایسی نامور شخصیت جس کے آپ بہت قریب رہے ہوں  اس پہ لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لکھنے والا فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس شخصیت کا کونسا گوشہ لکھنا ہے اور کونسا گوشہ جو اسکا بالکل ذاتی ہے۔

اسکی تمام جزیات جانتے ہوئے بھی نہیں لکھنا۔

اداکارہ فردوس میری بڑی بہن ہیں۔ مجھے ماں کیطرح عزیز ہیں انہوں نے جو مجھے محبت پیار دیا ہے کوئی خونی رشتے والی بہن بھی شاید نہیں دے سکتی۔ میں جب بھی پاکستان جاتا اور لاہور جاتا تو انہی کے گھر رہتا۔ وہ میرے کھانے کا خاص خیال رکھتیں۔ میں انکا بیٹا شنو (رضا) باسو اور ساری فیملی ساری ساری رات باتیں کرتے رہتے مگر فردوس بہن کو علم تھا میں صبح بہت جلد جاگ جاتا ہوں لہذا انہوں نے کام کرنے والی کو خاص ہدایت دی ہوئی تھی کہ مجھے ہر حال میں صبح کی چائے دینی ہے ۔

وہ دو دفعہ جب سویڈن اپنے بھائی کی بیٹی کو ملنے آئیں تو کئی بار وہ دن کے بارہ ایک بجے ہی میرے گھر آ جاتیں اور رات گئے واپس جاتیں۔
ابھی اسی ماہ کی بات  ہے جب ایک اچانک فوتیدگی کیوجہ  سے مجھے پاکستان جانا پڑا تو میں خصوصی طور پہ ان سے ملنے کیلئے لاہور گیا۔ بظاہر وہ ہشاش بشاش نظر ا رہی تھیں مگر مجھے انکے چہرے پہ ایک خاص تھکاوٹ سی نظر آئیں۔

میرے بار بار پوچھنے پہ بھی وہ ہنس کر کہ رہی تھیں
"نہیں میں ٹھیک ہوں" (یہ انکی شخصیت کا ایک خاص وصف تھا کہ وہ اپنا دکھ، درد، گلہ، شکایت کسی سے ظاہر نہیں کرتی تھیں ۔میں نے کبھی انکو کسی کی برائی کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے کبھی انکی بھی برائی نہیں کی جنہوں نے انکو برباد کرنے کی کوشش کی۔ چاہے وہ کوئی رشتےدار ہو یا کوئی باہر کا  آدمی) میں ان سے اگلے دن انے کا کہہ کر اور انکے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر چل پڑا مگر اس رات میری اپنی حالت اتنی خراب ہو گی کہ مجھے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔

کیا علم تھا میں انکے گھٹنوں کو آخری بار چھو رہا ہوں۔
فردوس صاحبہ کا گھریلو نام پروین تھا۔ انکا خاندان  بھی 1947ء کی تقسیم پہ دوسرے بے شمار خاندانوں سمیت اپنا سب کچھ لٹا کے خالی ہاتھ سرحد پار کرکے اس نئی مملکت میں پہنچا تھا جو اب پاکستان کے نام  سے جانی جاتی ھے ۔ فردوس صاحبہ کے خاندان نے بھی دوسرے لوگوں کیطرح اس نئے ملک میں خود کو زندہ رکھنے کیلئے محنت مزدوری کے پیشے کو اپنایا۔


اخبارات میں کام کرنے کی وجہ سے مجھے شوبزنس  میں کام کرنے والی بہت سی شخصیات کو قریب سے دیکھنے کے مواقع میسر آئے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے جیسے ہی کسی کے  چار ڈرامے، پانچ گانے یا دو تین فلمیں کامیاب ہوتیں ہیں، سب سے پہلے وہ اپنے قریبی حتیٰ کہ خونی رشتے داروں سے تعلق توڑ لیتے ہیں ، ان سے بھی جنہوں نے انکو اس مقام تک پہنچایا ہوتا ہے مگر فرودس بہن نے جس طرح شہرت کی بلندیوں  پہ پہنچ کے بھی اہنے بہن بھائیوں اور انکے بچوں کے بچوں کو بھی ساتھ رکھا ہے بہت کم فنکار ایسا کرتے ہیں۔

اگر کوئی روٹھ کر چلا گیا تو فردوس بہن انکو منا کر واپس خاندان میں لے آتیں۔ کبھی کسی سے گلہ نہیں کیا اور  خاص طور پہ فردوس بہن نے اپنے بچوں کے اوپر تمام آسائشیں وار دیں۔ جو کسی نے چاہا اسے دے دیا مگر اپنے بچوں کو اپنے سے جدا نہیں کیا۔
دوسری بات میں نے فنکاروں کے بچے بھی اتنے باتمیز اور ماں کے فرماں بردار نہیں دیکھے جتنے فردوس صاحبہ کے بچے ہیں۔ ماں جب کوئی کام کہتی  ہیں تو رضا اور باسو صرف ایک بار ہی دلیل دیتے مگر دوسری بار کہنے پہ ہنسی خوشی وہی کرتے جو  ماں جی نے کہ دیا ہے"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :