چوہدری ظہُور الہی کی لاش اور ہیلپ لائن 1122 سروس

منگل 2 فروری 2021

Aleem Osman

علیم عُثمان

راج نیتی کے اس گلے سڑے نظام میں اُس پبلک سروس کو درپیش سنگین مسائل بارے چشم کُشا تلخ زمینی حقائق ، جس سروس کی وجہ سے عام آدمی کے دل سے نکلنے والی دُعائیں بھی بعد میں اقتدار میں آنے والے 'پاور پالیٹکس' کے یہ بونے کھلاؤں اپنے نام نہ کر سکے . سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے کریڈٹ پر موجُود یہ خالصتا" مفاد عامہ کا پراجیکٹ" کیش" کرانے کی توفیق نہ تو 'جعلی حبیب جالب' یعنی "شو باز شریف" کو ہُوئی اَور نہ ہی "بَکری مُکّھے منتری" یعنی 'بے چارے بُزدار" کی' پیرنی' یعنی نام نہاد  "اللہ والی" خاتُون اول کو  .

.

(جاری ہے)

آج سوشل میڈیا میں ایسی وذیوز کا سامنے آنا نہ صرف افسوسناک بلکہ ریاست کے لئے شرمناک ھے، بالخصوص"نئی ریاست مدینہ" کی سرکار کے لئے تو اور بھی زیادہ شرمناک ھے جن میں اس نہائت اھم پبلک سروس کے اہلکاروں کی زبانی اس سروس کو درکار ساز و سامان اور اہلکاروں کے لئے سہولتوں کے فقدان کے قصے بیان کئے جارہے ہیں ، حالانکہ آج کی "ریاست مدینہ" کو آج کا 'امیرالمومنین' اپنے 50 "خلیفوں"  کےمی ٹیم کے ساتھ چلا رہا ھے .

.
ایک بار مُجھے ایک پبلک ٹرانسپورٹ میں دوران سفر غالباً کسی ایف ایم ریڈیو چینل پر"بڑے چوہدری صاحب " کا مُختصر انٹرویو سُننے کا اتفاق ہُوا ، اُس وقت چوہدری شُجاعت کے 23 دن کا پردھان منتری بننے کے دُور دُور تک کوئی آثار نہ تھے . چوہدری شُجاعت حُسین سے جب پُوچھا گیا "اگر آپ مُلک کے وزیراعظم ہوں تو کوئی ایک یا سب سے پہلا کیا کام کرنا چاہیں گے تو اُن کی روائتی سادگی سے بھرپُور جواب سے اُس وقت تو ایک لمحے کے لئے میرے چہرے پر مُسکراہٹ دَوڑ گئی تھی مگر فوراً ہی احساس ہُوا کہ یہی تو ہوتے ہیں اپنے شہریوں کی خدمت اَور عوام کی سہُولت کے لئے کسی ریاست کے ترجیحی بُنیادوں پر کرنے کے اصل کام  .

.
چوہدری شُجاعت حُسین نے بے ساختہ کہا تھا "مَیں سب سے پہلے مَیں یہ قانُون بنواؤں گا کہ کسی ہسپتال میں جب کوئی زخمی لایا جاتا ہے تو ایک سیکنڈ کی بھی دیر کئے بغیر اُسے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس پُہنچایا جائے گا ، پولیس چوکی والوں کی اندراج رپورٹ بعد میں بنتی رھے گی"
دوستو ! آپ کو پتہ ھے اُن کے دل سے بے ساختہ یہ بات کیوں نکلی؟ اس لئے کہ اُن کی زندگی کی شائد وہ تلخ ترین یاد ھے جو ایک کَسک بن کر اُن کی دل میں ایک تمنا بن بیٹھی ہوگی کہ  .

. پھانسی کی صُورت میں ریاست کے ہاتھوں ذُوالفقار علی بھُٹو کے  قتل کے فطری رَدّعمل میں مُبینہ "الذوالفقار" کے ہاتھوں چوہدری شُجاعت کے والد چوہدری ظہُور الہی کو جب لاہور کی نہر کنارے چلتی کار پر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا تو وُہ زندہ یا مُردہ ، کسی بھی حالت میں میو ہسپتال کے مُردہ خانے کے گیٹ کے باہر پُورے 2 گھنٹے پڑی رہی تھی . یہ بات مُجھے اُس وقت کے میو ہسپتال کے شعبہ طب شرعی (پوسٹ مارٹم ڈیپارٹمنٹ) کے سربراہ پروفیسر نصیب آر اعوان نے خُود بتائی تھی  .

. کسے معلُوم چوہدری ظہُور الہی کی موت ہسپتال پُہنچنے تک واقع ہُوئی ہی نہ ہو اوردہشت کے عالَم میں اُنہیں شدید زخمی حالت میں سیدھے ایمرجنسی وارڈ میں لے جانے کی ہمت ہی نہ کی گئی ہو  . . پُورے مُلک کی طرح ہسپتال میں بھی اتنی دہشت پھیل چُکی تھی کہ کسی کی جُرات نہ ہُوئی کہ خُون میں لت پت چوہدری ظہُور الٰہی کے جسم کو 'نئی انارکلی' کے پہلُو میں دھنی رام روڈ کی طرف واقع میو اسپتال کے مُردہ خانہ کے باہر سے اُٹھا کر گیٹ کے اندر ہی مُنتقل کر دے ، دہشت کا یہ عالَم تھا کہ دو گھنٹے تک کوئی چوہدری ظہُور الٰہی کے قریب تک نہ پھٹکا  .

.
پاکستانی سیاست میں مخالفت کو ذاتی دشمنی تک میں بدل لینے کی ایک بڑی مثال بھٹو اور ظہور الٰہی کے تعلق کی صورت میں سامنے آئی جو "المرتضی" اور "ظہور الٰہی پیلس" یعنی بھٹو اور الٰہی خاندانوں کو اس انداز میں منتقل ہوئی کہ مبینہ طور پر نام نہاد دہشت گرد تنظیم "الذوالفقار" کے ہاتھوں چوہدری ظہور الٰہی کے عبرتناک قتل کے بعد بتایا جاتا ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی والدہ نے اپنے بیٹے سے کہا تھا" اگر تم آج کے بعد اس خاندان کو بخشا تو میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی" اس دشمنی کی بنیاد کہتے ہیں اس وقت پڑی جب اینٹی بھٹو موومنٹ یعنی 1977 کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران حکومت نے چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا پرچہ کٹوایا جس کے رد عمل میں چوہدری ظہور الٰہی نے بعد ازاں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں قتل کے مقدمے میں بھٹو کی پھانسی پر اس طرح جشن منایا کہ ٹرائل کورٹ کے طور پر اس کیس کی سماعت کرنے والے لاہور ہائی کورٹ کے 5 رکنی بنچ کے سربراہ ، چیف جسٹس مولوی مشتاق نے جب بھٹو کو سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہوئے اس پر دستخط کر کے قلم توڑا تو وہ قلم اس وقت  کمرہ عدالت میں موجود چوہدری ظہور الٰہی نے ان سے لے لیا
بعد ازاں کہتے ہیں جب 1988 میں چوہدری شجاعت حسین کی والدہ نے بھٹو کی بیٹی بےنظیر بھٹو کو بطور وزیراعظم ٹی وی پر حلف اٹھاتے دیکھا تو انہیں ایک موٹی سی گالی دیتے ہوئے اپنے بیٹے کی غیرت کو للکارا جس پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا " میں کچھ کرتا ہوں" اور پھر چند روز بعد اپنی والدہ کو بتایا کہ انہوں نے صدر غلام اسحاق خاں سے بات کر لی ھے اور غلام اسحاق خاں نے انہیں یقین دلایا ھے کہ اس کی حکومت 6 ماہ سے زیادہ نہیں رہے گی .

بتاتے ہیں کہ 6 ماہ گزر جانے کے بعد بھی جب چوہدری شجاعت حسین کی والدہ نے ایک رات 9 بجے کے خبرنامہ میں بےنظیر کو بطور وزیراعظم ایک نیوز رپورٹ میں دیکھا تو انہیں ایک موٹی سی گالی دیتے ہوئے چلا کر کہا تھا "ایہہ . . ہالی تک وزیراعظم اے؟ تُو‍ں تے کہیا سی ایہہ چھ مہینے بعد وزیراعظم نئیں ہوئے گی" اس پر چوہدری شجاعت حسین نے کہا تھا "میں اک واری فیر گل کرنا واں"
لہٰذا "ظہور الٰہی پیلس" کے باسیوں نے اگر قدم رکھا تو اسلام آباد کے زرداری ھاؤس سے ملایا ، المرتضی یا بلاول ہاؤس میں کبھی نہیں رکھا ، چوہدری ظہور الٰہی اور چوہدری منظور الٰہی کے بیٹوں نے اگر ہاتھ ملایا تو حاکم علی زرداری کے بیٹے سے ملایا ، ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی (یا غالباً نواسے تک سے) کبھی نہیں ملایا .

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :