ہیروشیمااورناگاساکی بمباری

منگل 14 اگست 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

اگست کا مہینہ جاپان میں مرنے والوں کو یاد کرنے کا مہینہ ہے۔جس طرح محرم الحرام میں روایتی طورپرہم لوگ عموماًاپنے پیاروں کی قبروں کی صفائی ستھرائی اور لیپا پو تی کے لیے جاتے ہیں،یہاں ماہ اگست میں جو شخص جس علاقے سے بنیادی تعلق رکھتا ہو۔واپس اپنے عزیزوں کی قبروں پر حاضری اور دیکھ بھال کے لئے جاتا ہے۔جاپانی قبرستانوں کوآپ کنکریٹ کا قبرستان کہہ سکتے ہیں۔

کنکریٹ کے فرش پرقدِآدم اونچائی اور ایک مربع میٹررقبے میں قبر کا پتھرسے تراشیدہ تعویذہوتا ہے۔قبر کو سمادھی کہنا زیادہ مناسب ہوگا،کیونکہ مردے کو جلانے کے بعداس کی استھیاں اورباقیات ایک چھوٹے مٹکے میں بندکرکے اس میں رکھی جاتی ہیں۔ہرخاندان کی ایک ہی سمادھی ہوتی ہے،جس میں ہر مرنے والے کا مٹکا رکھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

سکول کے بچوں کو پورا مہینہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔

دفاتر میں کیلنڈر کی تو کوئی چھٹی نہیں ہوتی لیکن ہر ادارہ اپنی سہولت کے مطابق چار،چھ دن یا پھر ہفتہ بھرکی چھٹیاں مناتا ہے۔اس کا مقصد لوگوں کو اپنے آبائی علاقوں میں جانے کا موقع فراہم کرنا ہوتاہے۔روایتی لباس میں ملبو س علم وطبل بردارنوجوان جلوس نکالتے ہیں،ہربستی بستی ،نگرنگرنکلنے والے ان جلوسوں کا رنگ تعزیے کی بجائے عرس کا ہوتاہے۔

اس تفاوت کی وجہ موت اور حیات کا مذہبی تصورہے۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے اس رواج کی بابت حالات میرے علم میں نہیں ہیں۔مگر جنگ عظیم دوم کے آخری دنوں میں،سن1945میں اسی اگست کی چھ تاریخ تھی،جب ہیروشیماپر ایٹم بم گرایاگیا۔سترہزارلوگ چند سیکنڈمیں اور ایک لاکھ چالیس ہزارانسان چند دن میں اس ایٹم بم سے ہلاک ہو گئے۔تین لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں ایٹمی تابکاری کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔

کئی دہائیوں بعدبھی پیدا ہونے والے کئی بچے اسی وجہ سے معذورپیدا ہوتے رہے۔سارا شہر جل کر زمین بوس ہو گیا۔اس مرگِ انبوہ کی نشانی کے طور پر ایک ادھ جلی عمارت کو محفوظ کرکے وہاں امن میوزیم بنا دیا گیا ہے۔اسے ایٹمی گنبد کہتے ہیں۔
تین دن کے وقفے کے بعدامریکی صدر ہیری ٹرومین کے حکم پر صنعتی شہر ناگاساکی میں دوسرا ایٹم بم پھینکاگیا۔

چشم زدن میں ایک لاکھ شہری جان کی بازی ہار گئے۔دونوں شہروں میں مرنے والوں کا اندازہ تو شائد کبھی بھی نہ لگایا جا سکے،مگر بلا مبالغہ یہ تعداد لاکھوں میں تھی۔ان شہروں کو ایٹمی اسلحے سے نشانہ بنانے،جسے اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے”سوپرویپن“کا نام دیا تھا،ایک سبب یہ بھی تھا کہ یہ دو شہر ایسے تھے جن میں کوئی بھی امریکی فوجی جنگی قیدی نہیں تھا۔

چھ اگست کوہیرو شیما پر گرائے گئے ایٹم بم کانام’ ’ لٹل بوائے“ رکھا گیا تھا۔جس نے مشروم کی شکل کا ایٹمی بادل پیداکرکے دنیا میں ایٹمی اسلحے کے حصول کی دوڑ کا اعلان کردیا۔ناگا ساکی پر نو اگست کو پھینکے گئے ایٹم بم کو ”فیٹ مین“یعنی موٹے آدمی کا نام دیا گیا تھا۔ان ناموں سے امریکیوں کی حسِ مزاح اور بزلہ سبخی کے علاوہ بے حسی کابھی اندازہ ہوتا ہے۔


پندرہ اگست 1945کوجاپانی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے،عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اگرایٹم بم کا استعمال نہ بھی کرتا تب بھی جاپان ہتھیار ڈال دیتا،چونکہ یورپ میں اس کا اتحادی جرمنی مئی کے مہینے میں شکست کھا چکا تھا،اور وہاں جنگ اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ایٹمی بمباری سے شائد1941میں امریکی بندرگاہ پرل ہاربرپرجاپانی حملے کابدلہ لینامقصودتھا۔

یہ حملہ امریکہ کی جنگ عظیم دوم میں شمولیت کی وجہ بنا۔اس سے پہلے جنگ میں شمولیت کے بارے میں امریکی عوام اوراسٹیبلشمنٹ کی رائے منقسم تھی۔امریکی صدرٹرومین پرتنقید کی جاتی ہے کہ گنجان آباد شہروں پر ایٹم بم گرانااس کی غلطی تھی۔جاپان جزائر پر مشتمل ہے۔اس کی ناکہ بندی ہوسکتی تھی۔اگر ایٹمی ہتھیار کا استعمال ناگزیرتھاتوپھر کسی ویران یا کم آبادی والے علاقے میں استعمال کر لیتے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکی ایٹمی بمباری کاایک مقصد سویت یونین کو متنبہ کرنا بھی تھا۔کہ امریکہ عسکری طور پر کتنا آگے جاچکا ہے۔اسٹالن کی حوصلہ شکنی بھی مقصود تھی۔مگر دو ارب ڈالر خرچ کرکے بنائے گئے ان ایٹمی ہتھیاروں کی بمباری سے سویت یونین اورجوزف اسٹالن کاحوصلہ تو نہ ٹوٹ سکاالبتہٰ کرّہ ارض پر ریاستوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی ایک نہ ختم ہونے والی خطرناک دوڑ ضرورشروع ہوگئی۔


دوسری جنگ عظیم میں امریکی ایٹمی بمباری کے نتیجے میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگوں نے جس آفت کا سامنا کیا،اس کے لئے المیے کا لفظ بہت چھوٹا لگتا ہے۔چشم زدن میں لاکھوں لوگ لقمہء اجل بن گئے۔آگ کے شعلوں اور تابکار شعاعوں سے زندہ بچ جانے والوں میں لاکھوں انسان ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے۔ایٹم بم کے نتیجے میں آنے والی ہولناک تباہی ایک دن کی بپتا نہیں تھی۔

برسوں بعد پیدا ہونے والے کئی بچے ایٹمی تابکاری اثرات کی وجہ سے معذورپیدا ہوتے رہے۔اس مرگِ انبوہ کامشاہدہ کرنے والے بہت سارے لوگوں نے وحشت کی وجہ سے دہائیوں تک ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بولا۔پیہم خاموش رہے۔خوف،دہشت اورکرب کے اثرات زندہ بچ جانے والے لوگوں میں70سال بعد ،آج بھی دیکھے اور محسوس کئے جا سکتے ہیں۔جاپانیوں نے ایٹمی بمباری کے نتیجے میں ہنستے،بستے شہروں کو جل کر راکھ ہوتے دیکھا۔

ایسی تباہی کہ جس کی نظیر انسانی تاریخ میں اس سے پہلے دنیامیں کہیں نہیں ملتی، نہ ہی اس کے بعد کسی انسانی بستی نے ایسی بربادی کا سامنا کیا۔
دوسری جنگ عظیم میں کس حکمران کا کتنا قصورتھا؟اور کون سی ریاست کتنی قصوروار تھی؟اس کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔شائد ناممکن ہی ہوگا۔کیونکہ جنگ میں تو پہلی موت ہی سچائی کی ہوتی ہے۔اس وقت کا جاپان مشرقِ بعید میں جارحیت کا مرتکب تھا۔

نوآبادیاں قائم کررہا تھا،دیگر بھی ایسے بہت سے امور میں ملوث تھاجن کی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی۔امریکہ کی جانب سے مگرلاکھوں معصوم لوگوں کو ایٹمی شعلوں میں جلا کر بھسم کردیناایک ایسا عمل ہے جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔مورخ اسے ظلم کے علاوہ کسی دیگر نام سے یادنہیں کرے گا۔میری دعا ہے کہ کسی بستی کے لوگوں کو کبھی ایسا سانحہ نہ دیکھنا پڑے جیسا گزشتہ صدی میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگوں نے دیکھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :