منیرنیازی کی بذلہ سنجی

منگل 22 دسمبر 2020

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

دسمبراپنی سرد ہواؤں سمیت اپنا جوبن دکھا رہا ہے۔یہ اردو اور پنجابی کے عہد ساز شاعرمنیر نیازی کی رخصتی کا مہینہ بھی ہے۔پندرہ سال پہلے یہ دسمبر کا ہی ایک سرد دن تھاجب یہ باکمال شاعر ہم سے جدا ہو گئے۔منیرنیازی شعر وسخن کا ایساجاوداں حوالہ ہے جس کے بغیرادب اور ہمارے عہد کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔جیسی باکمال اور غیر روایتی ان کی شاعری تھی ویسی ہی بے مثال اور پرکشش ان کی شخصیت تھی۔

ان جیسی گفتگو سننے کو میری طرح ان تمام احباب کے کان ترس گئے ہوں گے جن کی نیازی صاحب سے آشنائی تھی۔پوراسچ بولتے تھے اور نفع ونقصان سے بے نیاز ہو کراپنی بے لاگ رائے کا اظہارکرتے تھے۔بقول شخصے بندہ ضائع کر دیتے تھے مگرجملہ ضائع نہیں کیا کرتے تھے۔ان کی بذلہ سنجی پر باآسانی کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔

(جاری ہے)

ایسے زندہ دل اور خوشگوارآدمی کی برسی کے موقع پربھی جی نہیں مانتاکہ سوگوارگفتگوکی جائے ۔


رسیاآدمی تھے۔جب جب بھی میں نے ان سے مشاعرے میں شرکت کی درخواست کی توانہوں نے اعزازیے کا کبھی نہیں پوچھا،البتہ”ام الخبائث“کا کیا بندوبست ہے؟یہ سوال کبھی کبھی پوچھ لیتے تھے۔احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز کو خصوصی طور پر ناپسند فرماتے تھے،جس کاسبب راقم کو معلوم نہیں ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی آدمی انہیں مشکل سے ہی پسند آتا تھا۔

ان کے حاسدین،جن کی کوئی کمی نہیں تھی،انہیں ”مردم بیزار“قراردیتے تھے مگر یہ بات تو سامنے کی ہے کہ شاعر ہونے کی صورت میں کسی بھی آدمی کی نیازی صاحب کی نظر میں پسندیدگی کے امکانات انتہائی کم ہو جاتے تھے۔ہمارے عہد کے ایک نامورشاعر کے بارے میں ان کا فرمان تھا کہ”ایسانامرادہے کہ اپنی غیر موجودگی میں بھی لوگوں کا وقت ضائع کرتا ہے“ایک نوآموز شاعر انہیں ایک دفعہ لاہورکے ایک چائنیزریستوران میں لے گیا۔

شایدان سے اپنی کتاب کا فلیپ لکھواناچاہتاتھا۔نیازی صاحب کے ہاں ایک ملاقاتی بھی اس وقت موجود تھا۔انہیں بھی مروتاً نیازی صاحب ساتھ لے گئے تھے۔کھانا کھایاجا چکااور بل اداکرنے کا وقت آیا تومیزبان شاعر نے اپنی جیبیں ٹٹولنے کے بعد اعلان کیا کہ اف !میں تو اپنا پرس ہی گھر بھول آیا ہوں ۔منیر نیازی نے ملاقاتی ساتھی کی طرف دیکھاتو جواباً اس نے بھی معذرت بھری نگاہ سے مسکراکر دیکھا۔

جب نیازی صاحب کو یقین ہو گیاکہ اب چاروناچارکھانے کا بل انہیں ہی ادا کرنا ہے توتوانہوں سے نوجوان شاعر کو مخاطب کرکے کہا کہ ناہنجار!ایک تو تم شاعر انتہائی ماٹھے ہواور اوپر سے اپنے ساتھ پرس بھی نہیں رکھتے ہو۔
اصل نام منیر احمد تھامگرقلمی نام سے ہی شہرت دوام پائی۔مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیارپورکے قصبے خانپورمیں ولادت 1928کو ہوئی۔اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں پر ہی حاصل کی تھی۔

ساہیوال کا ان دنوں منٹگمری نام ہواکرتا تھا،پاکستان کے قیام سے بیشتر ہی یہاں منتقل ہوگئے تھے،میٹرک انہوں نے منٹگمری سے ہی کیااور پھرانٹرمیڈیٹ کے لئے صادق ایجرٹن بہاولپور تشریف لے گئے۔ایک اور ہجرت کی تولاہور آگئے اور دیال سنگھ کالج سے BAپاس کیا۔ان کی شاعری میں ہجرت کاا ستعارہ شاید اسی وجہ سے نمایاں نظر آتاہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے سے بڑا شاعر کسی کو نامانتے تھے اور معاصرین سے تو بالکل بھی متاثر نہیں ہوتے تھے۔

پچھلی صدی کے کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر کے بڑے سے بڑے شعر پر ان کی زیادہ سے زیادہ داد،ٹھیک اے!!اچھااے!! بس یہیں تک ہواکرتی تھی۔ان کے ادبی نظریے کا خلاصہ پیش کیا جائے تو وہ یوں تھاکہ کائنات کی تاریخ میںآ ج تک ایک ہی شاعر عظیم ہواہے اور اس کا نام منیر نیازی ہے۔یہ بات ان کے منہ سے جچتی بھی تھی، چونکہ وہ تھے بھی فقیدالمثال ،نابغہء روزگار۔

انتہائی خوبصورت آدمی تھے۔باہراوراندر سے اجلے اجلے ۔ظاہراور باطن بالکل ایک جیساروشن۔بس ذرا غیر روایتی تھے۔لنڈے کی گفتگونہیں کیا کرتے تھے۔جینوئن خیالات کا اظہار ان کا طرئہ امتیازتھا۔
معاصرانہ چشمک شاعروں میں ایک قابل قبول عمل سمجھا جاتاہے اور قابل فہم بھی ہے کسی حد تک۔واقفان حال جانتے ہیں کہ لاہور کے ادبی منظرنامے پر ایک طویل عرصہ تک احمدندیم قاسمی کا طوطی بولتا تھا۔

جس محفل میں بھی جائیں کرسئی صدارت ان کے لئے مختص رہتی ۔ریڈیوپاکستان کے ایک مشاعرے میں منیرنیازی تشریف لائے اور سیدھے جا کر کرسئی صدارت پر بیٹھ گئے۔چہ مگوئیاں ہوئیں اور امجد اسلام امجد# سے مدد مانگی گئی،کہ وہ اس بارے میں بات کریں۔امجد صاحب نے جاکر منیر نیازی سے کہا کہ نیازی صاحب آپ جس کرسی پر براجمان ہیں وہ صاحبِ صدر کی ہے ۔اس پر نیازی صاحب نے پنجابی میں استفسارکیاکہ ”اوکون اے؟“یعنی کہ صاحب صدر کون ہے؟امجد صاحب نے جواب دیا کہ جناب احمد ندیم قاسمی۔

اس پر نیازی صاحب نے اپنے مخصوص لہجے میں پوچھا”تے او کون اے؟یعنی کہ وہ کون ہے؟گویا احمد ندیم قاسمی کو جانتے ہی نہ ہوں۔قاسمی صاحب کے عقیدت مندوں کا ایک وسیع حلقہ تھا،جس میں راقم الحروف بھی شامل ہے،ایک پورے عہد نے ان سے کسبِ فیض کیا۔مگر منیر نیازی کا اس بابت قول تھاکہ”احمد ندیم قاسمی برگد کا وہ درخت ہے جس کے سائے میں خبیث روحیں پلتی ہیں“کبھی کبھی ان کی دراز عمری پر چوٹ کرتے ہوئے انہیں ”سدا بہار بوڑھا“کاخطاب بھی دیتے تھے۔

یہ تو خیر بڑے لوگوں کی آپس کی باتیں ہیں میری نظر میں تو دونوں حضرات ہی عظیم شعراء اور بہترین انسان تھے۔
منوّ بھائی نے مجھے بتایا کہ منیرنیازی نے کالم نگاری کی کوشش بھی کی تھی۔ان دنوں”امروز“ایک مقبول روزنامہ ہواکرتاتھا۔دیگرشاعردوستوں کی دیکھا دیکھی جوکالم نگار بھی تھے ،نیازی صاحب نے بھی کالم نگاری شروع کر دی۔پہلے دن کے کالم میں جتنے لطیفے یادتھے لکھ ڈالے۔

باقی جو لطیفے یاد تھے اگلے دن کے کالم میں وہ بھی لکھ دیے۔اب تیسرے کالم کا ایک پیرا گراف لکھنے کے بعد قلم آگے جا ہی نہیں رہا تھا۔طویل سوچ بچار کے بعد انہوں نے رکشہ کروایا اورریواز گارڈن میں واقع منوّبھائی کے گھر یہ کالم لے کر پہنچ گئے۔کہنے لگے یہ کالم مکمل کردیں،آئندہ میں کبھی کالم نہیں لکھوں گا۔ویسے وہ کالم نہ لکھنے کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ کالم نگارتین ،تین جگہ سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

منوّبھائی سے ان کی بڑی دوستی تھی۔یہ بھی وجہ ہوسکتی تھی کہ دونوں کا نام منیر احمد تھا۔ہم نام ہونے کے علاوہ ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔میاں چنوں مشاعرے پر بلایا تورات دونوں ہمارے گھرکے ایک ہی کمرے میں ٹھہرے تھے ۔احمد فراز# اور قاسمی# صاحب ایک کمرے میں تھے قیام پذیر تھے۔
مشاعرے سے پہلے مشروب مغرب کی بوتل ہاتھ میں پکڑے ایک ایک لفظ غور سے پڑھ رہے تھے اور منوّ بھائی کے علاوہ جاوید شاہیں کو سنارہے تھے۔

اس ہدایت کے ساتھ کہ ڈاکٹر نے سخت منع کیا ہے۔جاوید شاہیں کا کہنا تھاکہ کیوں خود کو ترسا رہے ہو؟مشاعرے کے اختتام پر منوّ بھائی اور منیر نیازی کو میں نے اپنی گاڑی میں بٹھایا،رات کے پچھلے پہر دونوں میں بحث چل رہی تھی کہ لاہور واپسی کاسفر ابھی اختیارکیا جائے یا پھر رات میاں چنوں میں قیام کیا جائے۔منیر نیازی کا کہنا تھا ”منوّبھائی تم نے ساری زندگی گھر کو گھر نہیں سمجھا“حیرت انگیز طور پر منوّبھائی کا یہ رویہ معذرت خواہانہ تھاکہ یار صبح اٹھ کرچلے جائیں گے،رات ادھر ہی سوتے ہیں۔

میں نے مصالحت کروانے کی کوشش کی اور درمیان کا راستہ تجویز کیاکہ جناب آپ دو،تین گھنٹے سو لیں،اس کے بعد چلے جائیے گا۔اس پر نیازی صاحب بھناّکر بولے کہ یار!!ہم کوئی فوجی تھوڑی ہیں جو دوگھنٹے سوئیں؟گیسٹ روم کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے انہوں نے میرے بڑے بھائی سے شکوہ کیاکہ آپ نے اتنا اچھا گھر بنایا ہے مگرسیڑھیاں ٹھیک نہیں ہیں۔نیازی صاحب کے اس جملے کے پیش نظربھائیجان نے سیڑھیاں بعدازاں نئی بنوادیں مگرسیڑھیوں پر لڑکھڑانے کی وجہ کچھ اور تھی۔


آخری عمر میں تخلیقی عمل رک سا گیا تھا۔کسی نقاد نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ منیر نیازی نے توپچھلے سترہ سال میں ایک شعربھی نہیں کہا،وہ کیسا شاعر ہے؟اس کے جواب میں نیازی صاحب نے فرمایاکہ مرزاغالب نے تو پچھلے ڈیڑھ سو سال میں کوئی شعر نہیں کہاہے،اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟آخری مرتبہ ان سے ملنے گیا تو ڈرائیورکاشکوہ کرنے لگے کہ بڑا”تھن ٹٹ“ہے ۔

میں نے اپنی کم علمی کا اعتراف کیاتو سمجھانے لگے کہ جس بچھڑے کو بھینس کا دودھ وقت سے پہلے چھڑوادیا جاتا ہے،اس کی شخصیت پر پر تشدداثرات کاتفصیلی بیان کرکے ”تھن ٹٹ“سمجھایا۔ایک چرب زبان شاعرکے تذکرے پرتبصرے کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ ہے تو رکشہ مگر ہارن اس نے ٹرک کا لگوا رکھا ہے۔اسی متعلق پہلے کہہ چکے تھے کہ یہ ہیں تو کیچوے مگر انہوں نے سانپوں کی وردیاں پہن رکھی ہیں،یہ بھی کہ اگر سانپ کا زہر نکل جائے تو کیچوا ہی رہ جاتا ہے مگرمنیرنیازی نے مجھے بتایا کہ میرے متعلق زیادہ تر واقعات اور منسوب جملے لوگوں نے خودگھڑے ہیں۔

ان کی بات سچ بھی مان لی جائے توان جیسا جملے بازاوربذلہ سنج کم از کم میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔
خاک میں کیاصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :