یونس ایمرے کی آفاقی شاعری

جمعہ 8 جنوری 2021

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

مطابقت  کے مئی کے ایک کالم میں راقم نے حکومت پاکستان کے اس اعلان کا ذکر کیا تھا  جس میں پاکستان ٹیلی وژن پر  ارطغرل  کی طرز کا ایک اور ڈرامہ یونس ایمرے  دکھانے کا اعلان کیا  گیا تھا  یہ ڈرامہ ان دنوں ہر  سوموار اور منگل کو  پی ٹی وی پر دکھا یا جا رہا ہے۔اور ارطغرل کی طرح مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
یونس ایمرے( 1238 - 1320)  ایک ترکی شاعر اور صوفی شخصیت تھے جنھوں نے اناطولیہ کے ادب و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

انھوں نے قدیم اناطولوی ترکی زبان میں تحاریر لکھیں جو جدید ترکی زبان کی ابتدائی شکل تھی۔ یونس ایمرے کی 750 ویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ کے ادارے  یونیسکو نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے 1991ء کو "یونس ایمرے کے عالمی سال" کے طور پر منایا۔

(جاری ہے)

اس سال پوری دنیا نے یونس ایمرے کا کلام سنا ۔یونس ایمرے کی پیدائش صاری کوئے نامی گاؤں میں ہوئی۔

اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔ یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے کے قدموں میں گزار دیے۔ اُن کی زیر نگرانی انہوں نے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔ طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی، گیت،نظمیں، غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔ترکی ادب پر یونس ایمرے کے اثرات ان کے زمانے سے لے کر دورِ حاضر تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

احمد یسوی اور سلطان ولد کے بعد یونس ایمرے پہلے شاعر تھے جنھوں نے فارسی یا عربی میں شاعری کرنے کی بجائے اپنے زمانے اور خطے میں بولی جانے والی ترکی زبان میں شاعری کی۔ ان کا طرزِ تحریر وسطی اور مغربی اناطولیہ کے معروف اور ہم عصر اندازِ بیان کے بے حد قریب تھا۔ ان کے کلام کی زبان وہی ہے جو اس خطے کے بڑی تعداد میں نامعلوم علاقائی شاعروں، علاقائی گیتوں، علاقائی قصے کہانیوں اور پہیلیوں کی زبان ہے۔

14ویں صدی میں اسلامی مدارس سے فراغت کے بعد یونس ایمرے کونالیحان کی طرف قاضی بنا کر بھیجا جاتا ہے، جہاں قتل کے مقدمے میں اس کا تاپتک ایمرے نامی صوفی سے واسطہ پڑتا ہے، جس سے متاثر ہوکر وہ اس کی درگاہ میں درویش بن جاتا ہے۔ اور عشق حقیقی کا سفر شروع ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ رومی اور یونس ایمرے ہم عصر تھے مگر دونوں میں فرق صرف انداز کلام کا تھا۔

رومی نے ترک اشرافیہ میں رائج فارسی زبان کو اختیار کیا اور ایمرے چراگاہوں میں بولی جانے والی قدیم ترکی میں گویا ہوئے۔ یوں جہاں رومی کا فلسفہ جلد ہی قونیا کے دربار سے ہوتا ہوا ایران اور ہندوستان تک پھیل گیا وہیں ایمرے کے گیت خانہ بدوشوں کی خوشی غمی کا حصہ بن گئے۔
اس کے سارے کام اس کی اسلامی معرفت، ادب اور قرآن پاک کے اعلی درجے کے علم کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔

ان کی زندگی کے بارے میں قطعی معلومات نہیں ہیں ، لیکن ان کے گردونواح ، ان کے خیالات ، ان کے عالمی خیالات اور ان کے عقائد ان کی نظموں میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ کوئی دوسرا لوک شاعر نہیں ہے ، جو اناطولیہ میں اس قدر زبردست مقبولیت حاصل کرتا ہے۔ اپنی خالص زبان اور واضح افکار کے ساتھ ، انہوں نے ترک ادب کی تخلیق اور بالخصوص ترقی پذیر ترکی زبان میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔

یونس ایمرے کی زندگی اور ان کے کاموں پر بہت زیادہ ریسرچ کا کام بھی ہوا ہے۔ 1972 میں استنبول میں منعقدہ ایک بین الاقوامی سیمینار میں یونس عمرے کے فن اور فلسفہ میں انسانیت کی تفہیم پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ترک شاعری پر ان کا اثر  صدیوں پہلے شروع ہوا  اور ابھی تک پوری طرح جاری ہے۔ یونس ایمرےکے مطابق ، انسانی زندگی صرف ایک تھوڑے حصے پر مشتمل  ہے ، حالانکہ اس طویل سفر کا آغاز بغیر وقت کے کسی لمبے سفر کے لئے ہے۔

دنیا میں آنے کا مقصد انسان کا اپنے  آپ اور خدا کو جاننا ہے۔اسی کام میں پوری زندگی صرف ہو جاتی ہے۔ ہمارا وجود ہمارے ساتھ شروع اور اختتام پزیر نہیں ہوتا ، کیوں کہ روح زمانے کے آغاز سے ہی موجود ہے۔یونس اپنے تصورات کو مستقل طور پر تبدیلی اور پختگی کے اصول پر قائم کرتا ہے۔ جسم کے اندر ، روح میں مستقل عمل اور حرکت ہوتی ہے۔ اپنے خاکی وجود سے عبور حاصل کرنا  انسان کے وجود کا سب سے اہم پہلو ہے۔

وہ عوام اور عوام کے لئے ایک شخص تھا - سماجی انصاف کا ترجمان۔  و ه کهڑا ہوا انسانی  روایت کے مرکزی دھارے میں ، جس نے شروع ہی سے اسٹیبلشمنٹ اور ان طاقتوں پر تنقید کرنے کے اخلاقی حق کا دعوی کیا ہے۔ عصر حاضرکے ادبی رجحان کے برعکس  ، یونس ایمرے انسانیت پسندی  میں مقبول تھا۔انہوں نے حکمرانوں ، زمینداروں ، دولت مندوں ، عہدیداروں ، اور مذہبی رہنماؤں کے ذریعہ غریب عوام پر ظلم کے خلاف جر ات کے ساتھ اظہار خیال کیا  اور عام خانہ بدوشوں کی زبان استعمال کی۔

سات  صدیوں سے ان کے کلام میں ترک عوام ، جوان اور بوڑھے ، پڑھے لکھے یا ناخواندہ ، شخص کے لئے آسان الفاظ میں تسلی اور خوشی پائی گئی ہے۔
یونس  ایمرے نے ایک ایسے وقت میں ترک زبان کے لئے اپنا مؤقف اختیار کیا جب عربی اور فارسی کا اثر پہلے ہی علمائے کرام میں بہت تھا۔آ ج وہ نہ صرف اپنی سرزمین کے لوگوں کا ہے ، بلکہ دنیا میں ان سب لوگوں سے ہے جو حکمت سے محبت کرتے ہیں۔

ا س کی زندگی اور نام کی بہت پزیرائی  ہوئی ہے ، ان کے اعزاز میں مسجدیں تعمیر کی گئیں ہیں ، اور ترکی کے کئی  علاقوں میں  اس کے علامتی مقبرے موجود ہیں۔حقیقی طور پر   نیک شخص وہ ہے جو خدا کو جانتا ہے اور دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہے ، اور اس سچائی کو تسلیم کرتے ہوئے یونس ایمرے انسان سے خدا کی محبت میںسعی  کرنے  کی تلقین کرتے ہیں۔

ایک عظیم انسان کی علامت یہ  ہے ، وہ ہر ایک کے دل میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔یعنی دل سے جو بات  نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔
یونس ایمرے ایک عظیم ترک مفکر اور شاعر تھے جو اسلام کی تعلیمات کے مطابق صبر ، اطمینان ، رواداری ، سخاوت ، نیکی اور فضیلت کی اقدار کو اپنانے کے لئے اپنی تجاویز کے ساتھ صدیوں سے انسانیت کے لئے روشنی کا باعث رہے ہیں۔وہ ہمیشہ ہی اسلام کے عقیدے ، محبت ، امید اور انصاف کے پیغامات کا نگہبان رہا ہے جو وقت اور جگہ سے ماورا ہے۔ یونس ایمرے کے حالاتِ زندگی پر انہی کے نام سے ٹی وی سیریز یقینی طور پر 1991 کی طرح پوری دنیا میں ان کا امن ، انسانیت اور حق کی تلاش کا پیغام  پہنچائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :