مسئلہ مندر کا نہیں بلکہ کمزور ایمان کا ہے!!!

جمعہ 10 جولائی 2020

Aneem Chaudhry

انعیم چوہدری

دانش پربھا شنکر کنیریا پاکستانی کرکٹر ہیں انھوں نے پاکستان کی طرف سے 61 ٹیسٹ میچ کھیلنے 17693 گیندیں کروانی اور 261 وکٹیں حاصل کیں یہ پہلے پاکستانی لیگ اسپنر ہیں جنھوں نے اتنی وکٹیں حاصل کیں . رانا بھگوان داس یہ 2007 میں پاکستان کے ایکٹنگ چیف جسٹس آف پاکستان رہ چکے ہیں یہ وہ دور تھا جب پاکستانی عدلیہ مشکلات کا شکار تھی. جھارنا بساک (شبنم) یہ 28 سال تک پاکستان کی نمبر ون اداکارہ رہیں اور انھوں نے 180 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے یہ سب لوگ مذہب کے اعتبار سے ہندو تھے .ان سب نے پاکستان کا نام بلند کیا پاکستان سے پیار کیا . کیا ہم لوگ ان لوگوں کو اس ملک میں عبادت کا حق بھی نہیں دے سکتے کیا ان کو عبادات گاہ بنانے کا کوئی حق نہیں آخر ایسا کیوں ہم لوگ اتنے تنگ نظر اور احسان فراموش کیوں ہیں . پاکستان کیا صرف مسلمانوں کا ملک ہے کیا یہاں عبادت کرنے کا حق صرف مسلمانوں کو ہی ہے اگر واقعی ہی ایسا ہے تو پھر ہمیں اپنے پیارے جھنڈے سے سفید رنگ کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ کہ یہ رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے. اگر ہندو , عساہی , اور دیگر مذاہب پاکستان میں اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں تو دوسرے ممالک میں مسلمان بھی اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان ممالک نے نہ ہمیں اپنی مساجد بنانے سے روکا اور نہ ہی عبادت سے.برطانیہ کا دارالحکومت لندن ہے جہاں کم و بیش 1800 کے قریب مساجد قائم ہیں۔

(جاری ہے)

امریکہ سمیت دنیا بھر کا فنانشل کیپٹل نیویارک ہے جہاں ڈیڑھ سو سے زائد مساجد قائم ہیں۔امریکہ کا دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی ہے جہاں امریکہ کی دس بڑی مساجد میں سے ایک مسجد قائم ہے۔پورے امریکہ میں کم و بیش چار ہزار کے قریب رجسٹرڈ مساجد ہیں۔ ان تمام رجسٹرڈ مساجد کو بجلی اور پانی کی فراہمی کیلئے امریکی حکومت اپنے عوام کے ٹیکسوں سے سبسڈی فراہم کرتی ہے جس سے ان مساجد  کے یوٹیلٹی بلز میں کم و بیش ستر فیصد تک رعایت مل جاتی ہے۔

اس کے علاوہ  ہر امریکی ریاست میں مذہبی مقامات بشمول مسلمانوں کی مساجد کیلئے سالانہ سپورٹ فنڈز رکھے جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ان مساجد پر بیشتر ریاستوں میں پراپرٹی ٹیکس مکمل معاف ہوتا ہے، جب کہ جن
ریاستوں میں یہ ٹیکس وصول ہوتا ہے وہاں ان مساجد کو ڈونیشن کے ذریعے یہ ٹیکس واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔امریکہ بھر میں مساجد میں چندہ جمع کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔

کسی بھی مسجد کی ویب سائٹ پر جاکر آپ کوئی بھی رقم ڈونیٹ کرسکتے ہیں، مساجد میں جگہ جگہ چندے کے باکسز رکھے ہوتے ہیں جن میں کوئی بھی کیش ڈال سکتا ہے۔ اس ڈونیشن پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا۔لندن اور امریکہ میں قائم ان مساجد سے وہاں موجود عیسائیوں کے ایمان کو کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ بلکہ وہاں رہنے والے مسلمان اتنے حساس ہیں کہ اگر کبھی ان کی کوئی بات نہ مانی جائے تو وہ فوراً وہاں کی حکومتوں پر تعصب کا الزام عائد کرکے میڈیا اور عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔

دوسری طرف ایٹمی اسلامی ریاست کے مسلمانوں کا حال ملاحظہ فرمائیں۔2017 میں نوازشریف کے حکم سے اسلام آباد میں سی ڈی اے نے مندر بنانے کیلئے زمین الاٹ کی جس کی تعمیر  شروع ہوگئی ہے  اس پر یہاں کے متوسط ذہنیت رکھنے والوں نے شور  مچانا شروع کردیا کہ یہ یہود سازش ہے اور اس سے پاکستانیوں کے ایمان  کو خطرہ درپیش ہے۔کیا یہ لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ پچھلی سات دہائیوں سے ہر گھر میں سارا دن ٹی وی پر ہندی فلمیں چلتی ہیں جن میں بار بار مندر اور بت دکھائے جاتے ہیں۔

اگر ان فلموں سے ایمان کو خطرہ نہیں ہوا تو پھر مندر بننے سے تمہارا ایمان کیوں خطرے میں پڑ گیا؟کیا پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مذہبی مقامات پر عبادت کرسکیں؟ اگر آپ انہیں یہ حق دینے کو تیار نہیں تو پھر کس منہ سے یورپ اور امریکہ کی حکومتوں سے وہاں مساجد قائم کرنے کی توقع رکھیں گے؟ آج اگر آپ کو ایک مندر بننے پر مسئلہ ہے تو پھر کل کلاں کو باقی دنیا والےبھی آپ کی طرح اپنے ممالک میں مساجد پر اعتراض کرنا شروع کریں گے۔
اگر آپ کا ایمان مندر بننے سے خطرے میں پڑجاتا ہے تو مسئلہ مندر کا نہیں بلکہ آپ کے کمزور ایمان کا ہے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :