
علامہ اقبال اور اجتہاد
ہفتہ 17 اپریل 2021

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
آج کے دور ہمیں بہت سے مسائل درپیش ہیں جن کا اپنی کسی بھی فقہ میں حل موجود نہیں۔ وجہ یہ ہے ہماری تمام فقہیں بارہ سو سال قبل عرب میں تشکیل پائی تھیں ۔ آج اسلام ، شمالی یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان تک پہنچ چکا ہے۔
علامہ اقبال اجتہاد کا کام پارلیمان کو سونپنا چاہتے تھے۔علامہ قرآن حکیم کے ارشادات وشاورھم فی الامر اور وامرھم شوری بینھم کا حوالہ دیتے ہیں اور خلافت راشدہ میں یہی اصول کارفرما تھا۔ علامہ اجماع کو جمہوری روح سمجھتے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک ہمارے ہاں کوئی باقاعدہ اجماع نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے۔ اجماع امت کے حوالے علامہ کے پیش نظر تین سوالات تھے۔ کیا اجماع قرآنی احکامات کو منسوخ کرسکتا ہے؟ اس کا جوان انہوں نے نفی میں دیا ہے قرآن حرف آخر ہے اس کی حیثیت سپریم ہے اور کوئی حکمران یا پارلیمنٹ کے سو فیصد اراکین بھی ان کو منسوخ نہیں کرسکتے۔ دوسرا سوال آایا کہ ایک دور میں ہونے والااجماع بعدمیں آنے والوں کو پابندکرتا ہے کہ وہ اس کی پیروری کریں۔ علامہ کے نزدیک اگر اس پر عمل پیرا ہوا جاسکے تو بالکل عمل کرنا چاہیے بصورت دیگر یہ لازم نہیں۔ تیسرا علامہ اجتہاد اور اجماع کا حق کسی فرد واحد، یا گروہ کی بجائے مسلمانوں کے منتخب نمائندوں کو دینا چاہتے ہیں۔ چونکہ اسلام کی روح جمہوری ہے اسی لئے علامہ کے نزدیک اجماع کا ادارہ مسلم مجلس قانون ساز ہونا چاہیے۔ علامہ کہتے ہیں کہ ہمارے آئمہ نے کبھی اپنی تحقیق کو دوسروں پر مسلط نہیں کیا۔ جب امام ابوحنیفہ اور امام مالک کی فقہ کو سرکاری طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو دونوں آئمہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ اجتہاد کے حوالے سے علامہ ایک حدیث نبویﷺ پیش کرتے ہیں جو ایک سنہرا اورقابل عمل اصول ہے۔ جب رسول اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم مقرر کیا تو آپ نے دریافت کیا کہ معاذ تم وہاں فیصلے کیسے کرو گے تو انہوں نے عرض یاررسول اللہ ﷺ اگر قرآن اور اسوہ حسنہ سے مجھے راہنمائی نہ ملی تو میں اجتہاد کروں گا اور اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ رسول اکرم ﷺ حضرت معاذ کے اس جواب سے بہت خوش ہوئے۔ یہ زریں اصول ہم سب کے لئے بھی اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اجتہاد کا طریقہ کاریوں ہو سکتا ہے کہ اگر انفرادی اور اجتماعی حوالے سے قانون سازی کی ضرورت پیش آئے تو قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ کی طرف رجوع کریں اور جن معاملات میں راہنمائی موجود ہے ان کی پیروی کرنے چاہیے جن معاملات میں قرآن و سنت خاموش ہے وہاں انسانوں کو اپنی عقل و بصیرت کو استعمال کرکے رائے قائم کرنی چاہیے ۔
علامہ نے رموز خودی میں لکھاانحطاط اور دور زوال میں اجتہاد قوم کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی زیادہ محفوظ ہے اسی لئے بغداد میں مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد ایک طویل عرصہ تک انحطاط کا دور رہا اور ایک طرح سے اجتہاد کا دوازہ بند تھا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس دروزے کا کھولا جائے۔ وہ لکھتے ہیں
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.