زندگی گلزار ہے

بدھ 26 مئی 2021

Arooge Fatima

عروج فاطمہ

زندگی گلزار ہے۔یہ جملہ میں نے چند برس قبل ایک مصنفہ کا تحریر کردہ پڑھا تھا مگر تب شعوری یا لا شعوری طور پر اس جملے کی گہرائی کو جانچ نہ سکی۔ لوگ کہتے ہیں زندگی گلزار کیسے ہو سکتی ہے کجا کہ اک چمن تو رنگا رنگ پھولوں سے مزین ہوتا ہے مگر زندگی میں تو ہر کسی کو انفرادی طور پر ہزاروں غموں نے گھیرا ہوتا ہے۔جب بھی خوشی کچھ لمحوں کے لیے میسر آتی ہے تو غم اس کے ہم پلہ کھڑے اپنی باری کے لیے بالکل اسی طرح اتاولے ہو رہے ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی مسافر اسٹیشن پر ٹکٹ کے کٹ جانے کے لیے قظار کو پھلانگ کر آگے نکلنے کی سعی کرتا ہے اور زندگی تو ہر خوشی کا خراج مانگتی ہے۔


یہ وہ زندگی کی تصویر ہے جسے ہر شحص اپنے ذہنی جالے پر بنتا رہتا ہے اور اپنے تئیں یہی نتیجہ اخذ کرتا رہتا ہے کہ زندگی کوئی نخلستان نہیں بلکہ اس دشت کی مانند ہے جہاں کوئی پانی کی بوند ملنے پر سراب ہو جائے تو ا لاماں وگرنہ تو ساری عمر اس بوند کے انتظار میں ہی کٹ جا تی ہے۔

(جاری ہے)

ایک وقت تھا جب میں ان تمام باتوں پر کامل یقین رکھتی تھی کہ زندگی محض مشقتوں کی چکی کاٹنے اور غموں کے اثرات کو زائل کرنے کا نام ہے۔

زندگی گلزار تو فقط کہانیوں میں ہی ہوتی ہے، مگر کہتے ہیں نہ کہ
عمرِ رفتہ سکھا گئی کیا کچھ۔۔۔
میں زندگی کے جس مقام میں خود کو کھڑا دیکھتی ہوں تو مجھے زندگی گلزار ہے سے مناسب جملہ کوئی لگتا ہی نہیں ہیں کہ میں اپنے تجربات و مشاہدات سے زندگی کو خوبصورت بنانے کی طرف گامزن ہوں۔جیسے کوئی مالی اپنے چمن کی مٹی کاجائزہ لیتا ہے اسے تجربات کی نظر کرتا ہے کہ کونسے گل و بو سے چمن کی رعنائی میں اضافہ ہو گا اور کچھ ایسے درختوں کا چناوٴکیا جاتا ہے جو پت جھڑ کے آنے پر بہادری سے کھڑے رہتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو ہمہ وقت یقین دلاتے رہتے ہیں کہ دیکھو موسم کا تغیر مستقل نہیں ہوتا یہ ہر گز سدا رہنے والا نہیں ہے تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ تم خود پر آئی اس خزاں کو جھیل جاوٴاور حالات کے سازگار ہوتے ہی اپنی آب و تاب سے اس چمن کو مہکا جانا۔

اسی طرح زیست کا مالی ہم سے بارہا یہی کہتا ہے کہ اے انسان تم قانونِ فطرت سے کیوں ٹل جاتے ہو جبکہ موسمی تغیر اک فطری عمل ٹھہرا۔
تو طے ہوازیست کے چمن کو آباد رکھنے کے لیے بھی وہی کلیہ درکار ہے جس کے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
اپنے اندر وہ مزاحمت پیدا کی جائے جو روح کو غموں کے آنے کے بعد بھی آباد رکھے کہ پھر کسی خوشی یا نعمت کے ذائقے کا اثر زائل نہ ہو۔


زندگی میں وہ دیے جلائیے جائیں جو اندھیروں کے ختم ہونے کا نقارہ بجاتے ہوں۔
اپنے دل کی مٹی کو اس قدر نرم و زرخیز بنایا جائے کہ خشک سالی کے بعدبھی بنجر زمین پر بوئے جانے والے بیج کے پھوٹنے کا عمل رواں دواں رہے۔
اپنے اندر وہ شمع جلائی جائے جس کی شعائیں دوسروں کی زندگی کو منور کریں۔
اپنی ذات میں وہ میلے لگائیں جائیں جو خوشیوں کا سندیسہ سناتے ہوں۔
الغرض ، زندگی کو گلزار بنانے کے لیے اپنے مقصدِ حیات کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو نظر انداز کر کے ان پھولوں کے کھلنے کا انتظار کیا جا ٰئے جو کسی بھی بوٹے کے دوسرے سرے پر موجود ہوتے ہیں۔
نوٹ: خوش رہیں، اور دوسروں کو خوش رکھنے کا ہنر جانئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :