اور آنا پاکستان میں کورونا کا

منگل 18 مئی 2021

Arooge Fatima

عروج فاطمہ

زندگی کی گاڑی اپنی تیز رفتار سے رواں دواں تھی کہ قریبا ڈیڑھ سال قبل پوری دنیا کو ایک موذی وبا نے لپیٹ میں لے لیا۔ جس کی ابتداء دنیا کے ترقی یافتہ ملک چین سے ہویئی، جہان کثیر تعداد میں چینی باشندے معمولی بخار اور زکام کی کیفیت سے گزرتے ہوے عملِ تنفس میں دشواری کے بعد موت کے منہ میں جانے لگے۔ چینی سرکارنے فوراٌاس غورطلب مسئلے پر توجہ مرکوز کی اور پورے ملک کی سائنسی تجربہ گاہوں میں اس جان لیوا بیماری کی تشخیص شروع ہو گئی۔

تحقیق کے بعد نتیجہ یہ اخذ ہوا اس آناٌفاناٌ افتاد کاسبب اک چھوٹی سی خوردبین سے نظر آنے والی فوج ہے جو انسانی جان کی اس قدر بدترین دشمن بن چکی ہے کہ الحفیظ و الاماں۔ بعد ازاں ان ننھے جانداروں کو کورونا وائرس کانام دیا گیا اور سال ۹۱۰۲ میںآ ن وارد ہونے کی بنا پر Covid-19کے نام سے منسوب کیا گیا۔

(جاری ہے)

تو قارئین اس تیز ترارچابک دستے کے مختصر تعارف کے بعد آگے بڑھتے ہیں اور اس مخلوق کی مزید کاروائی پر نگاہ دوڑاتے ہیں۔

اپنی جائے پیدائش پر ڈران حملے کرنے کے بعد اس فوج نے کمال ہوشیاری سے دوسرے ممالک کی سرحدیں پار کرنا شروع کر دیں اور پورے خطہ دنیا پر حملہ آور ہو گئی۔
جب پاکستانی عوام پروطنِ عزیزمیں اس مخلوق کی آمد کا انکشاف ہواتو پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔ اس وبا نے کیا حاکم، کیا رایا، چھوٹے، بڑے، امیر،غریب غرضیکہ ہر انسانی طبقے تک اپنی پہنچ کو نہایت ہی سہل جانا اور ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہونے کے بعد اسپتالوں میں بازارِآدم سجاتے نظر آنے لگے اور بالخصوص سرکاری اسپتالوں کے کمرے کفن پھاڑ بولنے لگے۔

وسائل کی کمی کی وجہ سے طبعی امداد سے متعلقہ تمام اشیاء کا فقدان نظر آنے لگا۔ کورونا سے متاثرہ افراد برق رفتاری سے جان کی بازی ہارنے لگے۔مزید برآں اس وبا کے پھیلنے کو مذہبی گروہ دین سے دوری کا نتیجہ گرداننے لگے اور عوام پر فتوے جاری کیے جانے لگے۔ہر طرف دعاوٴں کا تانتا بندھ گیا اور ہر شب اس بلا سے پناہ مانگنے کی لیے فضا میں اذان کی آوازیں گوجنے لگیں۔


 ان حالات کے پیشِ نظر حکومتِ وقت نے اس مہلک بیماری کو روکنے کے لیے ملک بھر میں لاک ڈاوٴن کا اعلان جاری کیا جس میں عوام کے بلاضرورت گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کی گئی اور مختلف اقدامات عُرفِ عام ایس او پیز (SOP's) مرتب کیے گئے۔
ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے، دفاتر،فیکٹریاں غرضیکہ ہر وہ جگہ جہاں لوگوں کے ہجوم کا شبہ ہو سکتا تھا وہاں عوام کی آمدورفت روکنے کے قوی امکانات جاری کیے گئے۔

سماجی فاصلے کی ترویج کی گئی جس میں یہ طے پایا گیا کہ دورانِ ملاقات کم سے کم چھے فٹ کا فاصلہ برقرار رکھا جائے اور ملاقات کی تمام عمومی رسومات مصافحہ وغیرہ سے گریز کیا جائے
بقول شاعر۔۔۔
عجیب قحطِ مسیحائی ہے کہ اب یہاں
اپنے بھی اپنوں کوچھوئیں تو مرجائیں
عوام کو گھروں سے نکلنے سے قبل حفظ ِماتقدم کے مصداق فیس ماسک کے استعمال کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا۔

ملک بھر میں فوج کو الرٹ جاری کیا گیا اور عوام کی ناعا قبت اندیشی کو بھانپتے ہوے فوج اور پولیس کے ڈندے کا بخوبی استعمال کیا گیا۔لاک ڈاوٴن ہونے کے نتیجے میں ہر سو ملک کی کایا پلٹتی دکھائی دی گئی۔ ملک بھر میں کورونا کی وجہ سے ہونے والے ثرات کا احاطہ کیا جائے تو یہاں طبقاتی و سماجی اعتبار سے ہر کسی کے اثر انداز ہونے کا گراف متفرق پایا گیا۔


ٓاگر ملازمت پیشہ افراد کی زندگی کا جائزہ لیا جائے توان کو تو بن مانگے رخصت مل جانے پر اپنے گھر میں رہ کر بغیر کسی مالی پریشانی کے پنے اہل و عیال کے ساتھ وقت گزاری کا خاصہ وقت درکار رہا۔ماسوایئے قومی مسیحاوٴں بشمول ڈاکٹر، نرسز اور دیگر پیرامیڈیکل سٹاف کے جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر لیے ہوے اپنے پیشے سے فرض شناسی کا علم بلند رکھا ۔

راقم پوری قوم کی جانب سے اپنے قلم کی بدولت ان قوم کے مسیحاوٴں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی جسارت کرتی ہے۔دوسری جانب ملک کا اک بڑا حصہ کاروباری پیشے سے وابستہ طبقہ بھی اس وبا سے حد درجہ متاثر ہوا۔ ملک میں چھوٹی بڑی تمام صنعتوں کے تاجروں کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا جس کا نتیجہ ملکی سطح پر معاشی بدحالی کی صورت میں منظرِعام پر آیا۔

مگر اس کے برعکس تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جا ئے تو کچھ منافع خور تاجروں نے لاک ڈاوٴن میں بھی اپنی اوردوسروں کی حفاظت کو مقدم نہ رکھا اور خفیہ طور پر اپنی دکانداری خوب چلائی۔ باہر سے تو حکومتی قانون کی پاسداری کرتے ہوے دکا نیں مقفل کی گئیں مگر اندر چور رستوں سے خریداروں کا ایسا ہجوم کہ ایسا معلوم پڑتا تھا کہ کمال ہوشیاری سے کورونا کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکی جا رہی ہو۔

کورونا کی وبا نے مزدور طبقے کی کمر ٹورنے بھی کوئی کثر نہ چھوڑی اور یہاں تک کے سینکڑون گھروں میں فاقوں کی نوبت آن پہنچی۔گو کہ حکومت کے کارندے اور کچھ سماجی کارکنوں نے حتی المقدورمتعدد خاندانوں کی مالی مدد کا بیڑہ اتھایا مگر سفید پوش لوگ اپنی مفلسی کا بھرم رکھتے ہوے اس کڑے وقت کی چکی میں پستے رہے۔
کورونا وائرس کی تباہیوں کی وجہ سے نوجوانوں کی تعلیمی ساکھ سب سے زیادہ متاثر ہوئی حکومت نے تعلیمی نقصان کے ہرجانے کے طور پر "Online Education System"کا اطلاق کیا گیامگر ملکی مسائل بشمول بجلی کا بحران، تکنیکی مسائل کا سامنا، اور دیگر بے شمار مسائل طلبہ کے تعلیمی معیار کے آگے دیوار بنے کھڑے رہے۔

اس طریقے سے اس مشکل گھڑی میں بلاشبہ تعلیمی سلسلہ تو جاری رہا، مگر مادرِ علمی سے دوری کے باعث نوجوانوں کی ذہنی نشوونما پر خاصا اثر پڑا۔ دوسری طرف ان تمام حالات میں یہ وائرس عوامی مزاح کا شکا ر ہونے لگا اور رفتی رفتہ لوگ اس کے وجود سے انکاری ہونے لگے اور اس کو ملکی سازش کا نام دینے لگے۔پاکستانی ہونہار قوم نے اپنی فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوے اپنے ردِ عمل کے طورپر مختلف سیاسی اور سماجی نہج پر جملے بازی کی گئی۔

قارئین کی سہولت کے لیے چند ایک حسبِ ذیل ہیں
پاکستان مین آ کر کورونا وائرس خود پھنس گیا، اب کورونا چیخ چیخ کر چین سے پوچھ رہا ہے مجھے کیوں نکالا؟
آ کورونا ، تیرے جن کڈاں۔۔
جیسے ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، ویسے ہی ہر چھینک کورونا نہیں ہوتی۔۔۔
لاک ڈاوٴن کے ختم ہونے اور پاکستان میں کورونا کیسز میں کمی کے بعد زندگی تو گویا اپنے معمول پر آنے لگی" Stay home, stay safe" کے ایجنڈے کو بالائے طاق رکھتے ہوے تمام اداروں میں ایس او پیز(SOP's) کو گڈ بائے کہنے کا اہتمام کیا گیا اور اسی اثنا میں کورونا کی دوسری لہر آن پہنچی۔

حکومتی اجلاس دوبارہ سے حرکت میں آئے اور پھر سے وہی آلاکار دہرائے گئے مگر اس وبا سے نمٹنے کے لیے مستقل سدِباب کا کویئی سرا ہاتھ میں نہ آیا۔ موجودہ حالات میں جب ملک بھر میں اس خدائی فوجدار کے تیسرے حملے کا دورا دورا ہے اور اس کی وجہ سے ہونے والے قیمتی جانوں کاضیاع، اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم بتدریج جاری ہے پھر انہی مشکل حالات مین ویکسینیشن کی ابتداء ہونے پر تو یہی بات صادق آتی ہے کہ "ہر شبِ غم کی سحر ہوتی ہی"
اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے
بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے
مگر خوش کن بات تو یہ ہے کہ وائرس بچاوٴ مہم کو پروان چڑھانے کی لیے پاکستانی عوام ویکسینیشن کروانے کی غرض سے جوق در جوق اسپتالوں کا رخ کر رہی ہے۔

مگر ٹھریے ابھی ہم اس فوج کے ارادوں کو مکمل طور پر پسپا کرنے میں کامیاب نہیں ہوے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈورائی جائے تو پچھلے دنوں ہمسایہ ملک بھارت میں عوام کورونا کی وبا سے مستشناء رہ کر ایک بڑی تعداد میں اپنے مذہبی تہوار ہولی اور کمبھ میلہ منانے میں مگن رہی ۔نتیجیتاُ روزانہ کورونا کیسز کا اضافہ لاکھوں کی تعداد میں نظر آ رہا ہے کہ سرحد پار ہندوستان کے باسی آکسیجن کو ترس رہے ہیں اور ا اس وبا کے ہاتھوں زندگی کو مات دے رہے ہی اور کچھ ایسا ہی مظاہرہ پاکستان میں عوا م کی عید کی تیاریوں میں مشغولیت اورنے نوٹوں کی تلاش میں دکھائی دیا گیا۔


موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم متحد ہو کر اک جنگجو کو قوم کا روپ دھار لیں جیسے فوجی دستہ ملکی سرحدوں پر رہ کر دشمنوں پر بھر پور حملہ تو کرتا ہے مگر اپنی حفاظت کے لیے اپنے مورچے میں بھی قیام کرتا ہے۔ٹھیک اسی طرح ویکسین اس وائرس کے خلاف کارگر تو ثابت ہو سکتی ہے مگر بحیثیت قوم ہمیں اپنے مورچے خود سنبھالنے ہوں گے Stay safe کو نعرہِ حق کادرجہ دینا ہوگا اور تما م (SOP's) ایس او پیز پر عمل پیرا ہو کر اپنی جانوں کی کو بچا کر اپنی ملکی اثاثوں کی حفاظت یقینی بنانا ہو گی۔

جی ہاں! اک با شعو رقوم کسی بھی ملک کے لیے کسی قیمتی اثاثے سے ہر گز کم نہیں ہوتی۔ اپنی طرف سے تمام اقدامات کی بھر پور سعی کرنے کے بعدمعاملات ربِ کریم پر چھوڑ دینے ہوں گے کہ وہی تو واحد ذات ہے جو اپنی مخلوق پر آنے والی ہر مصیبت کو ٹالنے پر قادر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :