ہر فرد ہے ملت کا مقدر کا ستارا

ہفتہ 1 جنوری 2022

Arooge Fatima

عروج فاطمہ

چند روز قبل مجھے ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا جس کا انعقاد پاکستان لٹریچر آرٹ کونسل راولپنڈی میں "School of Peace and Leadership Studies" کی جانب سے ہوا۔ تقریب کا ایجنڈا ہمارے عظیم قائدجناح کی یومِ پیدائش (۵۲ دسمبر )پر ان کی کام، کام، کام، کی آئیڈیالوجی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رکھا گیا ، جس میں پاکستانی نوجوان نسل کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں ‘ (Leadership) کو بروئے کا لاتے ہوئے ملک میں امن و شانتی (Peace) برقرار رکھنے کی کاوش پر ایوارڈز پیش کیے گئے۔

تقریب کی سب سے شانداربات یہ تھی کہ جنس، مذہب، ملک و قومیت سے بالا تر ہو کر ایوارڈ یافتہ ممبران کے کارہائے نمایاں کو سراہا گیا ۔تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا ، حضورﷺ کی بارگاہ میں محبت وعقیدت کا نظرانہ پیش کیا گیا اور پھر قومی یکجہتی کے اظہار کے لئے قومی ترانہ بجایا گیا۔

(جاری ہے)

سلسلہ آگے بڑھا تو مہمانِ خصوصی کی جانب سے چاروں صوبوں، گلگت ، اور آزاد کشمیر سے آئے ہوے نوجوانوں کے درمیان ایوارڈز تقسیم کئے گئے اور مقررین کو اپنے اظہارِ خیال کے لئے دعوت دی گئی ۔

ہر مقرر نے اپنی تعمیری امور کا حوالہ دیتے ہوے اپنے الفاظ سے نوجوانوں کو ایک عزم، جوش و ولولے سے از سرِ نو روشناس کروایا مگر کچھ مقررین ایسے تھے جنہوں نے پنڈال میں بیٹھے ہر با ضمیر شخص کو جنجھوڑ کے رکھ دیا ۔ جی ہاں! میں بات کر رہی ہوں اس طبقے کی جو ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ طبقہ جس کو معاشرے میں نفرت و کراہت کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، وہی طبقہ جس کے اس دنیا میں آنے سے ہم خدا کی تخلیق کی بے حرمتی کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ، معاشرہ ان کو Transgenders کا نام دیتا ہے۔

مگر میں انہیں ان کی جنسی شناخت سے بالا تر ہو کر عام مرد و زن کی طرح خدا کی بنایٰی ہوئی اشرف المخلوقات ہی گردانوں گی۔ باقی مقررین کی مانند ان کے الفاظ میں وہی جوش و جذبہ تو بلاشبہ نمایاں تھا، مگر ان کی آنکھوں میں معاشرے کی جا نب سے دھتکارے جانے کا کرب چیخ چیخ کر دہایاں دے رہا تھا جو ہجوم میں بیٹھے با شعور عوام کے ذہنوں پر کوڑے برسا رہا تھا ۔

تقریب میں خواجہ سرا کمیونٹی کی نمایٰندگی بے شمار با ہمت اور بہادرقومی معماروں نے کی پھر وہ چاہے علیشہ شیرازی ہو جس نے اس معاشرے کی بوسیدہ روایات کو توڑ کر اپنے ہی جیسے ہم جنسوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرنے کا بیڑا ٹھایا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ پسماندگی سے نکل کر آگاہی کا سفر کرنا ہر ذی روح کا حق ازل سے ہی مقرر ہے یا پھر صبا گل جیسی انسا نیت کا درد رکھنے والی سماجی کارکن ہو جس نے پاکستان بھر میں نہ صرف اپنی کمیونتٹی کے علاج معالجے کا کام شروع کیا بلکہ ملک بھر میں ان کی ڈسپینسریاں عام مرد و زن کو بھی ان کی سفاکی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی سہولیات سے برابری کی سطح پر مستفید ہونے کا موقع دیتں ہیں۔

اسی اثناء میں کسی مقرر کی جانب سے ایک دل خراش جملہ بولا گیا"،انسانوں کو انسانوں سے ہی خطرہ ہے " اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہم جو جدت پسندی کے علمبردار ہیں اپنی سوچ میں کب انقلاب لائیں گے؟کب ان جیسے خوبصورت دل کے مالک لوگوں کو معاشرے کا با عزت شہری بنانے کی کوشش پر عمل پیرا ہوں گے؟۔
 خدا لگتی کہوں تو میں ہمیشہ سے اس طبقے کے لیے دل میں نرم گوشہ محسوس کرتی آئی ہوں مگر اس کا ذکر محض اپنے چند قریبی احباب کے علاوہ علی الاعلان نہیں کر پاتی تھی،شاید اسی معاشرے کی باسی ہونے کی بنا پر اپنی ہی سوچ سے خائف تھی ِ ۔

مگر اُس شام نے میری سوچ کو یہ تحریک دی ہے کیوں نہ میں اپنا قلم اس کمیونٹی کے لئے اٹھاوٴں جنہیں عرش والے نے اپنے گھر بیت ا للہ کی حفاظت کی ذمے داری سونپی ہے اور ہم فرش والے اس کی بنائی ہوئی مخلوق کی بے قدری کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ کیوں نہ ہم اپنے معاشرے میں "Say No to Transphobia" جیسے نعرے کو بلند کرنے کے لیٰے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ میں اپنی با شعور اور با ضمیر قوم سے یہ بھر پور امید رکھ سکتی ہوں کہ میرے قلم سے دیا جلانے کی کاوش عوام الناس کے ذہنوں میں موجود تاریک جالوں کو دور کر کے روشنی کی شمع جلانے میں معاون ثا بت ہو گی ۔


موجودہ دور کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوے School of Peace and Leadership Studieجیسے ادارے کا ملک کے نوجوان کے خون کو سر گرم رکھنے کا قدم قابلِ فخر ہے اور میں اس کامیاب تقریب کا سہرا ادارے کے بانی، اور تمام ٹیم ممبران کی محنت کو دوں تو بے جا نہ ہوگا ۔کیوں کہ موجودہ دور میں ہماری نوجوان نسل شدید ذہنی گراوٹ کا شکار ہو چکی ہے اوراس نہج کے اقدام نئی نسل کو اپنی قابلیت کے زورِ بازو ملک کو عالمی سطح پر ابھارنے مین معاون ثابت ہو ں گے۔
بقول اقبال۔۔۔
خِرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پِیروں کا استاد کر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :