کرکٹ ۔۔۔کھیل ہے دیوانوں کا

جمعرات 18 نومبر 2021

Arooge Fatima

عروج فاطمہ

عالمی طور پر جب بھی کھیلوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو فٹبال کے بعد کرکٹ وہ واحد کھیل ہے جس کے شایٴقین کی تعداد لا محدود تصور کی جاتی ہے ۔ حال ہی میں کرکٹ کا ٹونٹی ٹونٹی ورلڈ کپ گزرا جس میں ورلڈ رینکنگ کے اعتبار سے ٹیم کی شاندار کارکردگی کی بنا پر پاکستان کو چوتھے نمبر پر لا کھڑا کیا۔
 ٹورنامنٹ کا پہلا ٹاکرا " پاکستان بمقابلہ بھارت" تھا جس کی وجہ سے سرحد کے دونوں اطراف میں ایک سنسنی پھیلی ہویٴی تھی، قبل از میچ میڈیا کے ذریعے مختلف تندوتیزجملوں کا تبادلہ کیا جا رہا تھا اور پھر وہ دن آن پہنچا جب عوام ڈھڑکتے دِل کو تھامے ہوے اپنی اسکرین پر نظریں جمایٴے بیٹھی تھی اور ان ہی حالات کے پیشِ نظر ایک جملہ کیا خوب جچتا ہے۔

۔۔
"کرکٹ محض کھیل نہیں ہے میاں، یہ تو وہ جنو ں ہے جو کسی دیوانے کی رگوں میں خون بن کر ڈورتا ہی"
گویا کہ یہ صرف ایک چند گھنٹوں کی گیم ہی نہیں تھی بلکہ برصغیر پاک و ہند کے لیے پانی پت کی لڑایٴی کے برابر تھی۔

(جاری ہے)

میچ کا احوال تو تمام شاہدین دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح پاکستانی بلے بازوں نے اپنی دھویٴیں دار کارکردگی سے" موقع موقع "کے نعرے کا جواب بھارت کی خاص و عام عوام کا غرور خاک میں ملا تے ہوے دیا اور پھر پاکستانی کپتان بابر اعظم نے ہندوستان فتح کر لیا ۔

سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو پاکستانی جانبازوں کو اپنی سرحدوں کی سکیورٹی کے مسایٴل حل کرنے کا معاملہ در پیش آ جاتا ہے ۔ جی ہاں! قاریٴین آپ درست سمجھے ، میرا اشارہ بلاشبہ نیوزی لینڈ ٹیم کی جانب ہے جنہوں نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ باہمی سیریز کے حوالے سے نہ صرف عہد شکنی کی بلکہ عالمی مقابلے سے پہلے کھلاڑیوں کے حوصلے پست کرنے کی ناکام کوشش کی۔

مگر ٹیم نے اپنے وطن کی للکار کا بھر پور جواب جیت کی شکل میں دیا اور اور سونے پر سہاگہ ہماری ذہین قوم نے اپنے ملک کی آن پر میلی نظرڈالنے والوں کا جواب اپنی ازلی حسِ مزاح کو بیدار کرنے سے دیا، جس میں سے چند چٹکلے حسبِ ذیل ہیں:
 ہمارے ہاں سکیورٹی کے مسایٴل کا حل تسلی بخش طور پر کیا جاتا ہے!
بدلے ابھی باقی ہیں!
نیوزی لینڈ والے تیاری رضوان کی کر کے آیٴے تھے پیپر میں آصف علی آ گیا !
پھر یوں ہوا کہ پاکستانی جیت کا سلسلہ جاری رہا اور ہمارے جانباز اسی طرح اپنی قوم کا دل جیت کر داد وصول کرتے رہے ۔

مگر" زندگی نشیب و فراز کا مجموعہ ہی" جیسے مقولے کے مصداق پاکستانی ٹیم مسلسل جیت کا سفر طے کرتے ہو یٴے سیمی فایٴنل کے مقابلے میں مات کھا گیٴ ۔ پا کستانی قوم جو ٹرافی کی منتظر تھی ، غیر یقینی ہار کے بعد دل ِ شکستہ ہو گیٴ ، جذباتیت کا روپ اختیار کرگیٴ اور قوم کے محسنین بالخصوص حسن علی کواچھی کارکردگی نہ دکھانے کے باعث تنقید برایٴے تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر شاباشی ہے ہماری ٹیم کو جن کے حوصلے محنت کی نا قدری پر بھی بلند رہے۔


بقول شاعر۔۔۔
کتنا خطرناک ہے یہ کرکٹ کا نشہ
ہارنے پر بھی دیکھو خوش ہوں میں
 اس جواں مردی کا سہراٹیم کے قابل کپتان بابر اعظم اور ساتھی سینیرکھلاڑیوں کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی قیادت میں نہ صرف جوانوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ انہیں اٹل حوصلے سے سپورٹس مینشپ کے مظاہرے کی بھی بھر پور تلقین کی۔


مگر یہاں میں اپنے پاکستانی عوام سے مخاطب ہونا چاہوں گی کہ خدارا اپنے قومی ہیروئوں کی قدر کرنا جانیں ، ہم بحیثیت قوم جس ذبوں حالی کے دور سے گذر رہے ہیں ایسے میں اگر پاکستانی ٹیم اپنی انتھک محنت اور عوام کی دعائوں کی بدولت عالمی کرکٹ میں اپنا نام رقم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے تو محض ایک ٹرافی نہ ہونے کی وجہ سے اس فتح کا مزا کِرکرا نہ کریں ، اس کو دل سے own کرکے باشعور قوم ہونے کا ثبوت دیں اورسچے دل سے اس نعرے پر عمل کریں۔
تم جیتو یا ہارو سنو! ہمیں تم سے پیار ہی، ہمیں تم سے پیار ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :