اسلام کے ٹھیکیدار کون؟؟؟

پیر 13 دسمبر 2021

Arooge Fatima

عروج فاطمہ

ربِ کریم نے جب کائنات کی تخلیق کا عمل شروع کیا تو فرشتوں نے عرضی ڈالی ، اے ربِ کیا ہم تیری عبادت کے کیے کم پڑ گئے ہیں جو تو خاک کا پتلا بنانے پر مصر ہے؟ کیا ہم تیری صبح و شام پاکی بیان کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ اللہ رب العزت نے فرمایا! میں ایک ایسی مخلوق بنا نے جا رہا ہوں جوزمیں پر میرا نائب ہو گا اور وہاں جا کر نظامِ الہی کا پرچار کرے گا۔

بے شک میں ایسا کرنے پر قدرت رکھتا ہوں ، پھر اللہ نے مٹی کا پتلا بنایا، اپنے نور سے اس میں روح پھونکی اور تمام ملائکہ کو حکم دیا کہ میرے بندے کو سجدہ کریں ،ماسوائے ابلیس تمام فرشتے حکم بجا لائے۔ آدم و حوا کو تخلیق کے بعد جنت میں اتارا گیا جہاں پر ابلیس کے بہکانے پر خطا کا مرتکب ہونے کے بعد آدم کو زمین پر بھیج دیا گیا اور یوں نسلِ نوعِ انسانی کا آغازہوا ۔

(جاری ہے)

اللہ نے انسان کو اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مختلف ادوار میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فر ما ئے اور سلسلہ نبوت پر مہر ہمارے پیارے نبی آخر الازماں ،وجہ تخلیقِ کائنات، حبیبِ خدا ، محمدِ مصطفی ﷺ کی آمد سے تمام ہوئی۔ رسولِ پاک ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا جا ئے تو انہوں نے خدا کے دین کی تبلیغ کے ساتھ سب سے زیادہ توجہ اُسوہ حسنہ پر دی ،گویا اپنی ۳۶ سالہ زندگی میں تمام معاملاتِ زندگی کو اپنی سنت سے ثابت کیا اور ہمیشہ انسانیت کا درس دیا۔


مگر آج اکیسویں صدی میں ہم جو احمدِ مصطفی ﷺکے نام لیوا ہیں ، دین سے دوری اختیار کر چکے ہیں اور عصرِحاضر میں مذہبی شدت پسندی ہمارے معاشرے کا وہ ناسور بن چکی ہے جو انسانیت کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان وہ ملک ہے جس کا منشور کلمہ طیبہ پر رکھا گیا اور اس کا وجود اسلامی بنیاد پر رکھا گیا۔ مگر آج میں دیکھتی ہوں اسی اسلامی ملک میں شر پسندی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے اور صد حیف عالمی دنیا کے نقشے پر خطہ پاکستان کوRed highlited mark سے دکھایا جاتا ہے اور پاکستان کو دہشت گردملک گردانا جاتا ہے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ دہشت گردی مذہبی استحصال کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔

دینِ اسلام کے نام پر نام نہاد مسلمان قتل و غارت کا بازار گرم رکھتے ہیں قوم ان مذ ہب کے ٹھیکیداروں کو مذہبی شدت پسند گروہ کا نام دیتی ہے مگر میں علی الاعلان انہیں مذہبی شر پسندوں کے نام سے پکارنا حق بجانب سمجھتی ہوں کہ یہی شر پسند عناصر، آئے دن یہاں توہینِ رسالت کے نام پر انسانیت کو تار تار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں پھر چاہے وہ آسیہ مسیح کا قصہ ہو ، سرگودھا کے رہائشی بنک مینیجر کا قتل ہو، مردان میں نو جوان مشال کا افسوسناک قتل ہو یا حال ہی میں سیالکوٹ میں پیش آنے والا اندوہناک سانحہ ہو جس میں ایک سری لنکن نژاد پاکستانی کو کسی نجی دشمنی کی بنا پر توہینِ رسالت کی آڑ میں میں دن دہاڑے، سرِ بازار بے دردی سے آتشزدہ کر دیا گیا ۔

یہ قتل صرف ایک حادثہ نہیں ہے ہمیں بحیثیت قوم اس کے دور رس نتایج برداشت کرنا پڑیں گے، جو انسان اپنا روزگار تلاش کرنے مملکتِ اسلام پاکستان میں آیا تھا، جو پاکستان کو ایک امن پسند ملک گردانتا تھا ، ہم اس کے اہلِ خانہ کو اس بات کا یقین کیسے دلوائیں گے کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ناموس رسالتﷺ کے نام پر ایک بے گناہ کی جان لینے والے ہی در اصل توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں، وہ نبیﷺ جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئے اس نبی کا نعرہ لگا کر کسی بے گناہ کی جان لینا رحمت دو عالم کی توہین نہیں تو اور کیا ہے؟ مذہب کے ان ٹھیکیداروں کے لیے ہی افتخار عارف کا شعر ہے کہ۔


رحمت ِسیدِ لولاکﷺ پر ہے کامل یقین
امت ِسیدِ لولاک ﷺسے خوف آتا ہے
 اس المناک حادثے پر انسانیت اپنی موت آپ مرنے کا ماتم کرتی رہی مگر جائے وقوعہ پر کوئی بھی ابنِ آدم ایسا نہ تھا جو اس ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانے کی جسارت کرتا۔۔
کسے خبر تھی کہ چراغ مصطفوی ﷺ لے کر
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
مگر المیہ یہ ہے کی ہماری بے ضمیر قوم کو توہینِ رسالت کا قانون تو خوب از بر ہے مگرسیرتِ النبیﷺ سے مکمل طور پر منہ موڑ چکے ہیں کہ مسلمان خود کو رحمت العلمین کاا متی تو کہلواتا ہے مگر رحم کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوچکا ہے ، خود کو منصفِ دو جہاں کا پیروکار تو سمجھتا ہے مگر نظامِ انصاف سے انحراف کا قائل ہو چکا ہے ، مُساوات کا درس دینے والے نبی کو تو مانتا ہے مگر دینی فرقہ واریت میں مکمل طور پر بٹ چکا ہے اور خود کو حق کے داعی کی عزت و ناموس کا رکھوالا تو سمجھتا ہے مگر اسی نبی کی امت کی عزتوں کا سرِ بازار جنازہ نکالنے پر تلا ہوا ہے اور انہیں مسلمانوں کے لیے اقبال  ایک صدی قبل فرما گئے ہیں۔


ہر کو ئی مست مئے ذوق ِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو !یہ اندازِ مسلمانی ہے ؟
 حیدری فقر ہے نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے ؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر
پاکستان میں ایسے قابلِ مذمت واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو عالمی سطح پر ملکی ساکھ اور مذ ہب کے استحصال کا باعث بن رہے ہیں اور ان واقعات کی وجوہات میں لا قانونیت اور لا دینیت جیسے عوامل سرِ فہرست ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھائے جا رہے ہیں اور ہم بزدل عوام تماشائیوں کی قطار میں کھڑی، ا نسانیت کو پستی کی جانب سفر کرتے ہوے دیکھ رہی ہے کہ شاید کو ئی رہبر آئے اور ہمارے ملک کو عالمی سطح پر بحیثیت اسلامی ملک عزت کا مقام دلوائے ۔


بقول شاعر۔۔۔
آہ کس کی جستجو رکھتی ہے آوارہ تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :