دعا ،تقرب ِخداوندی کا راستہ

ہفتہ 1 مئی 2021

Arooge Fatima

عروج فاطمہ

دعا کو عبادات کا مغز کہا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہر مذہب میں بذریعہ پیغمبر عبادات کا ایک خاص طریقہ عائد فرمایا ہے۔جس میں متعلقہ مذہب کے پیروکار اپنے عقائد کے دائرہ کار میں رہتے ہوے اپنے پالن ہار کی بارگاہ میں ’اس کی ثناء کا نظرانہ پیش کرتے ہیں۔لیکن دعاکسی بھی خاص مذہبی رسومات کی تابع نہیں ہوتی یہ توخالصتاً مانگنے والے کی نیت اور دینے والے کی رحمت پر منحصر ہوتی ہے۔

د’عا عبادت کا اک ایسا جزو ہے جس میں ہر انسان اپنے انداز سے اپنے رب کے آگے جھولی پھیلاتا ہے اور اپنی طلب کا کاسہ لے کر اپنے رب کے آگے کھڑا ہو جاتا ہے اور رب تعالیٰ ہی تو فرماتے ہیں کہ مانگنے والا اپنی حیثیت و اوقات دیکھ کے مت عرضی ڈالے فقط میری شان کو ملحوظِ خاطر رکھے اور وہ پھر اپنی عظمت کا دم بھرنے والوں کو خالی ہاتھ نہیں لٹایا کرتا۔

(جاری ہے)


میں اگر اس بات کو آسان الفاظ میں بیاں کروں تو مدعا کچھ یوں ہوگا کہ جیسے ہماری چاہت ہوتی ہے کہ ہمارے پیارے اپنی کسی بھی حاجت کے لیے ہمیں یاد رکھیں اور وہ رب تو پھر ستر ماوٴں سے بڑھ کر اُلفت رکھنے والا ہے وہ تو بن مانگے جھولیاں بھرنے والا ہے ، پھر اس کا اپنے بندے سے پکارے جانے کا فرمان تو حق بجانب ہے ۔
پھر سوال اٹھتا ہے ۔ دُعا مانگنے کا سلیقہ کیا ہونا چاہیے؟کیا ہمیں کسی وسیلے کی حاجت ہوتی ہے؟
یہ بات صریحاًسچ ہے کہ دوسروں کے حق میں کی گئی دُعا اللہ کے سامنے انسان کو عاجز پیش کرتی ہے کہ میرے بندے کہ دِل میں مخلوقِ خدا کی محبت کس قدر پنپ رہی ہے اس نفسا نفسی کے دور میں یہ بندہِ خدا کسی اور کے لیے التجا کر رہاہے۔

مگر منطقی انداز میں دیکھا جائے تو ہمیں اپنی مذہبی و روحانی رہنمائی کی لیے تو بارہا کسی کی ضرورت پیش آسکتی ہے، مگر انسان کورب کے در پر حاضری کے لیے محض اپنے دِل میں مصمم یقین کے ساتھ تڑپ جگانی پڑتی ہے اور پھر عرش والے اور فرش والے کے درمیان نیت کی قبولیت کا معاملہ در پیش ہوتاہے۔
د’عا میں خدا سے تقرب کے حصول کے لیے دِل کی یکسوئی درکار ہوتی ہے اور اپنے رب کو منانے کے لیے خاص اہتمام کرنا بھی بندے کی رب سے محبت کا اظہار ہوتا ہے ۔

ماہِ صیام کی دعاوٴں، عبادات کی لذت اور چاشنی سے لطف لینے کے لیے خصوصی طور پر رب تعا لٰی اپنے بندے کو افضل مواقع فراہم کرتے ہیں۔ سحروافطار کی برکتیں،تسبیح وتراویح، رت جگے کی عبادات، گناہوں سے بخشش مانگنا نیز اس ماہِ مبارک میں بے شمار رحمتوں کے نزول سے فیض یاب ہوکر اک سچاوپکا مسلمان اپنی روح کو از سرِنو تازہ کرتے ہوے اپنے رب کی قربت پا لینے کے لیے بھر پور جدوجہد کرتا ہے۔


 د’عا کے دوران اپنے رب سے ہمیشہ کرم کے ملتجی رہو ، کیونکہ ضروریاتِ زندگی تو وہ ہر کسی کی پوری کرتاہے اس ربِ کریم نے تو اپنے رازق ہونے کا خود وعدہ فرما یا ہے کہ وہ تو پتھر میں موجود ہ کیڑے تک کو رزق عطاکرتاہے۔مگر جس پر اس کے کرم کی نگاہ ہوتی ہے وہ لوگ تو بس چن لیے جاتے ہیں اور کرم سے نوازے ہوے لوگوں کی فہرست میں شامل ہونے کے لیے کوئی مخصوص عبادات درکار نہیں ہوتیں وہ تو بس انسان کی عاجزی اور اس کی نعمتوں کی شکر گزاری کو دیکھتے ہوے ہی اپنے کرم کی بارش برسا دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :