رشتے دار

بدھ 22 جولائی 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

کسی جنگل میں ایک بہت ہی خونخوار ،مظبوط اور توانا شیر کی حکومت تھی ۔ شیر بہت ہی جلال والا تھا ۔ سب جانور ان کی بڑی عزت کرتے تھے ۔ اس شیر کے دو بچے تھے ۔ بلکل اس شیر کی طرح خوبصورت اور خونخوار ۔ دونوں ہی اپنے باپ کو دیکھ کے بڑے ہو رہے تھے ۔ بڑے والے کو اپنے باپ کی یہ عادت بہت بری لگتی تھی ۔ کہ وہ ہر جانور سے بہت پیار سے ملتے ان سے حال چال پوچھتے ۔

اور حسب توفیق مدد کرتے تھے ۔ وہ ہر اپنے سے کمزور جانور سے رشتہ بنا کے رکھتے تھے ۔ جبکہ بڑے بیٹے کا خیال تھا کہ ہمیں اپنے طاقت اور نسل کے اعتبار سے تعلق رکھنا چاہیے ۔ زندگی گزر رہی تھی ۔ ہر طرف امن و امان تھا۔ رات کو سب بیٹھ کے ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے اور صبح شکار کے لئے دوسرے جنگلوں کا رخ کرتے تھے ۔

(جاری ہے)

شیر کا بڑا بیٹا ایک دن ایک جنگل میں شکار کے لئے پھر رہا تھا ۔

کہ ایک ہاتھی نے ان پر حملہ کیا اور دونوں لڑنے لگے ۔ اتفاق سے وہاں کے بادشاہ شیر کا وہاں سے گزر ہوا ۔ اور ہاتھی کو ڈانٹ کے اور سنگین انجام کے دھمکی دینے سے جگڑا ختم کیا۔ اور شیر کے بیٹے کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا ۔ اور باتوں باتوں میں جب اسے پتہ چلا کہ یہ فلاں خونخوار شیر کا بیٹا ہے ۔ تو اس کو بھڑکانے  لگا۔ کہ تیرے باپ نے سب کمزور ،  بے نسل اور غریب جانوروں کو سر پے چڑھا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔

۔
اس تقریر سے اس کے ذہن میں اور اچھی طرح یہ بات بیٹھ گئی کہ میرا باپ کچھ نہیں جانتا ۔
جب شیر کا آخری وقت قریب آیا تو اس نے اپنے دونوں بیٹوں  کو بہت نصیحت کی اور اس  فانی دنیا سے چلے گئے ۔ اب متفقہ طور پر بڑے بیٹے کو بادشاہ بنایا گیا ۔ اور اس تقریب میں دوسرے جنگلوں کے جانور بھی شریک ہوئے اور وہ شیر بھی آگیا ۔ جسکا اب یہ شاگرد ہوگیا تھا  ۔

قصہ مختصر  دن گزرتے گئے اور بادشاہ کے طاقت اور گمنڈ میں کی گئی غلط فیصلوں سے جانور دوسرے جنگلوں میں شفٹ ہونے لگے ۔ اور ایک دن اس شیر نے جس کو یہ استاد سمجھ رہا تھا نے جنگل پر حملہ کردیا ۔ اور جانوروں کی ذیادہ تعداد نہ ہونے کی وجہ سے جنگل پر قبضہ کر لیا اور شیر کو قیدی بنا کے بولے ۔ جب تک تیرا باپ زندہ تھا اس نے دوسرے جانوروں کے ساتھ میل ملاپ بنایا ہوا تھا ۔

تو میرے لیے اس جنگل پر حملہ کرنا ناممکن تھا ۔ لیکن جب حکومت تیرے جیسے نا اہل کے سپرد ہوئی تو میرا فتح یقینی ہوگیا ۔
ہم کہانیاں تو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں ۔ لیکن ان پر عمل اور ان سے سبق نہیں سیکھتے ۔ اس کہانی میں شیر کا بیٹا ہمارے لیے یہ سبق چھوڑ گیا۔ کہ رشتہ داریوں اور تعلق ہی سے دنیا میں باقی رہا جا سکتا ہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں اپنے رشتہ داروں اور اپنے چاہنے والوں سے دور بھاگنا رواج بن چکا ہے ۔

آج ہر کوئی دوسرے سے گلہ کر رہا ہے ۔ کہ فلاں نے میرے ساتھ یہ کیا وہ کیا ، وہ مجھ سے ملنے نہیں آتا میں کیوں ان سے ملنے جاؤ وہ مجھے فون نہیں کرتا تو میں کیوں کرو وغیرہ وغیرہ
اگر اسے طرح ہمارے باتیں اور عادات رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے سب خیرخواہوں اور رشتہ داروں کو کھو دینگے ۔ اور بدگمانی تو شروع آدھر سے ہوتی ہیں ۔ جب ہم دوسرے شخص کے بارے میں سولات دل میں رکھے اور ان کے  جوابات بھی ہم خود سے ڈھونڈنے لگے ۔

فلاں میرے پاس فلاں موقعے پر نہیں آیا کیوں؟ ۔ اس کا جواب ہم خود سے ڈھونڈنا شروع کرتے ہیں اور ان کی اس جواب کا پتہ لگا دیتے ہیں جن کا اس کو بھی علم نہ ہو ۔
امام ابن سیرین فرماتے ہے۔"کہ اگر کسی مسلمان تک کسی مسلمان کی کوئی بات پہنچے تو اس کے لیے اچھا گمان رکھے۔ اور عذر تلاش کرے کہ کوئی بات ہوگی ۔ یا مثبت پہلو یوگا۔اور اگر کوئی وجہ اور عذر نہ ملے تو یہ کہہ دےکچھ خیر ہوگی کوئی وجہ ہوگی جو میں نہیں جانتا "
اللہ نے بھی مومن کی صفات میں ایک صفت رشتہ داروں کو جوڑے رکھنا ۔

بیان فرمایا ہے ۔ اسلئے میرے دوستوں ہمیں خود میں مومنوں کی یہ صفت پیدا کرنا چاہے ۔ اور آج سے کوشش شروع کرنی چاہئے کہ رشتوں کو مضبوط کرے ۔ کوئی ہم سے ناراض ہے۔ تو ان سے معافی اور جس سے ہم ناراض ہو ان کو معاف کرنا چاہیے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :