ہمارے پھول ہمارے جان۔۔۔۔

جمعہ 4 ستمبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

سوشل میڈیا پر روز گھومتی ہوئی بچوں کی تصاویر دیکھتا ہوں ۔ تو نہ جانے کیوں دل میں ایک عجیب سا خوف اور ڈر اپنے بچوں کے بارے میں پیدا ہوتا ہے۔ کہ اللہ خیر کرے۔ اللہ ان کو اپنے حفظ وآمان میں رکھے ۔ اجکل بچوں سے زیادتی کرنے والے درندوں میں اضافہ ہورہا ہیں ۔ جو بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے ان کو مار ڈالتے ہیں۔
ان بچوں کے اھل خانہ کے دکھ درد سینے میں محسوس کرتا ہو۔

اب تین اور چار سال کے پھول جیسے معصوم اور خوبصورت بچے بھی ان درندوں سے محفوظ نہیں ۔ ان کے ساتھ بھی یہ زیادتی کرکے موت کے وادی میں پہنچا دیتے ہیں۔ اللہ کا کوئی خوف ،اخرت میں سوال جواب کا کوئی ٹینشن اور کوئی سوچ نہیں ۔ میرے نظر میں یہ انسان نہیں یہ درندے بھی نہیں یہ کوئی دوسری قسم کی مخلوق ہے ۔

(جاری ہے)

جو ہمارے پھولوں جیسے بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

۔۔
ہمارے ملک میں کاروبار اور روزگار کم ہونے کی وجہ سے بہت سے میرے بھائی اکثر میرے طرح پردیس میں یا گھر سے باہر ہوتے ہیں ۔ حلال رزق کمانے کے لیے جہاں در در کی ٹوکریں کھانی پڑتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ ناموافق حالت میں بھی زندگی گزرنی پڑتی ہے ۔وہاں  ان کو بچوں کا غم بھی کھا رہا ہے۔ کہ اب کیا کیا جائے ۔ یہاں روزی روٹی کمائے کہ گھر میں بیٹھ کر بچوں کی ان درندوں سے حفاظت کریں۔

سوشل میڈیا الیکڑناک میڈیا اور دوسرے میڈیا کے زرائع معمولی معمولی باتوں کو ٹاپ سٹوری بنا کے ہر روز لوگوں کو پیش کرتے ہیں ۔ لیکن جس مسلے اور معاملے پر سب سے زیادہ سوچ اور کام کی ضرورت ہے اسے پیش کرنے میں ناکام نظر اتی ہیں ۔ ہماری حکومت بھی اس معاملے میں بس صرف بولنے کی حد تک کام کر رہی ہے ۔ کسی جگہ زیادتی ہوتی ہے ۔ تو حکومت کا کوئی کارکن یا سربراہ پہنچ جاتا ہے ۔

اور اھل خانہ کو تسلی اور ایک لمبی نہ پوری ہونے والی تقریر کر کے اپنے حق سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ ۔۔
میرے ناقص اور کمزور تحریروں میں کبھی بھی میں نے حکومت یا کسی ادرے پر تنقید نہیں کی۔ اور خود سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ کبھی ملک کے سیاست اور معاملات کے بارے میں نہیں لکھونگا لیکن پے درپے ہونے والے واقعات نے مجبور کیا ۔ کہ اس پے کچھ لکھوں ۔

اپنے بس کے مطابق اپنا اواز ایوان اعلی تک پہنچاو ۔ اور اگر دنیا میں میرا اواز ایوان اعلی تک نہ پہنچے تو اپنے رب کے دربار میں ملامت اور کوشش نہ کرنے والوں، برائی کے خلاف اواز نہ اٹھانے والوں اور ظلم کے خلاف اپنا منہ نہ کھولنے والوں میں میرا نام شامل نہ ہو ۔ اور اپنے رب کے سامنے سرخرو اور کوشش کرنے والوں اور ظلم کے خلاف اواز اٹھانے والوں میں میرا نام شامل ہو۔


کچھ مہینے پہلے ایک شور سنائے دیا کہ حکومت بل پاس کرچکی ہے کہ بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو سر عام پانسی دی جائی گئی ۔ لیکن اب تک ایک بھی مجرم کو سزا نہیں ملی ۔ سزا کے لئے تو بل پاس کر لیا لیکن جرم کو ثابت کرنے اور سزا سنوانے کے لیے ایک سرگرام اور تیز عدلیہ بھی ضروری ہے ۔ جو مجرم کا فیصلہ بیس سال کے بجائے پانچ دن میں کریں ۔ یہاں تو سالوں سال مقدمات چلتے ہیں ۔

مظلوموں کو عدالت کے چکر لگا کر اور خراب انجام کے دھمکیوں سے پریشاریز کیا جاتا ہے۔ جو اکثر طوالت اختیار کی ہوئے کیسز سے دلبرداشتہ ہو کے جوڑ توڑ پر امادہ ہو جاتے ہیں ۔ جو ان درندوں کے حوصلے بلند کرتے ہیں ۔
کب تک یہ حیوان ، درندئے ہمارے گلشن کو ویران کرتے رہے نگے ۔ کب تک ہم یوں ہی خاموش تماشائی بن کے سب کچھ دیکھتے رہے گے ۔ کب تک ماوں کی مامتا اور باپ کے فخر کو ہم اجڑتے دیکھے گے۔


او سب مل کے سوشل میڈیا ، الیکڑانک میڈیا اور دوسرے وہ زرائع جہاں تک ہماری پہنچ ہیں ایک مہم ایک شکوہ اور ایک یاددہانی شروع کرتے ہیں ۔ کہ اول ہم حکومت سے اور ان سے منسلک تمام ادروں سے درخواست کرینگے کہ خدارا کچھ اپنے کام کو صحیح طریقے سے کرنا شروع کریں اگر ان سے نہیں ہوتا تو پھر ہم خود اپنے گلشن کی حفاظت کرینگے اور ہر اس درندے کو جو ہمارے پھولوں کو برباد کر رہے ہے ۔ اس کو نیست و نابود کردینگے ۔
ساتھیوں ان پھولوں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض اور ہمارا کام ہیں۔ اپنے بچوں کے حفاظت کریں ۔ اور ان کو زیادہ باہر گھومنے اور اوارہ گردی سے دور رکھیے ۔اور جہاں تک ہوسکے ہر ایک فورم پر اس کے خلاف اواز اٹھائے اپنے انے والے نونہالان کو بچائے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :