مقصد پیدائش

جمعرات 12 نومبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

علمائے کرام حضرات فرماتے ہیں کہ اللہ نے اتنے زیادہ فرشتے پیدا کی ہے۔ کہ جب بیت المعمور  سےایک دفعہ طواف کرتے ہیں۔ تو پھر ہمیشہ کے لئے اس کا نمبر نہیں آتا۔ اور جو فرشتہ جس عبادت میں مشغول ہے ۔ وہ قیامت تک اس پے قایم و دائم رہے گا۔ یعنی جو سجدے کے حالت میں ہے  ۔ وہ سجدے کے حالت میں رہے گا ۔ جو قیام کر رہا ہے۔ وہ اس کو ہمیشہ کے لئے جاری رکھے گا۔

جب اتنے زیادہ فرشتے اللہ نے پیدا کی ہے۔ جو گناہوں سے پاک ہر وقت اللہ کے عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ تو ۔میرے جیسے گناہگار انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد کیا تھا۔ کیوں اللہ نے ہمیں پیدا کیا؟ ہمارے پیدا ہونے کا مقصد کیا ہے؟ کبھی سوچا ہے؟ کبھی غور کیا ہے۔ کہ کیوں ہم اس دنیا میں آئے۔ اور کن اعمال اور کاموں سے ہمارا امتحان لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

۔۔

۔۔
اج میں مسجد میں بیٹھ کر سوچ رہا تھا۔ کہ وہ کونسا عمل تھا ۔ جس کو کرنے سے اصحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو  دنیا میں جنت کی بشارتیں ملی۔ کیا وہ ہمیشہ روزے رکھتے تھے؟ کیا وہ ہمیشہ تہجد پڑھتے تھے یا کوئی اور عمل بھی تھا جس کی وجہ سے وہ رہتی دنیا تک ایک مثال بن گئے  ۔ میں سوچتا رہا ۔ اور جو کوئی اللہ کے دین میں سوچتا ہے۔ اللہ تعالٰی سے اپنے تخلیق کے بارے میں سوال کرتا ہے۔

اسکو  ضرور اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے۔ یہ دل بھی بڑا عجیب شے اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اپ اللہ کے دین کے بارے میں سوچنا شروع کرو۔ تو یہ نرم اور خوف ذادہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ پھر ہم کو ڈراتا ہے ۔ ہم کو سمجھتا ہے اور اپنے خالق حقیقی کے ساتھ رابطہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ لیکن یہ دل جب ہم کسی کے بارے میں برا سوچنے یا حسد کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

تو یہ وحشی اور جانور بن جاتا ہے۔ اور اس کی طرف سے جو ہدایات اور سکنات ہم کو موصول ہونا شروع ہوتے ہیں۔ وہ صرف بربادی اور تباہی کے لئے کافی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ ۔اللہ ہم سب کے دل کو اپنے دین اعظیم کے بارے میں استعمال ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ہم میں سے بہت سے لوگ نماز روزے کا بہت پابند ہوتے ہیں۔ تہجد گزار بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ حج اور عمرہ بھی بہت شوق سے ادا کرتے ہیں۔

جو بہت اچھی بات ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے  ہمیں ایک اور چیز یا کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ جسے معاملات کہتے ہیں۔ لیکن افسوس اور معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ کہ ہم اس میں بہت بہت کمزور ہیں۔ ہم رات کو تہجد پڑھتے ہیں اور صبح اپنے ہمسائے کا حق کھاتے ہیں۔ دوسرے کو نقصان پہنچانے کے جتنے بھی طریقے ہیں۔

وہ بہت شوق اور فخر سے اپناتے ہیں۔ اور کوئی بھی موقعہ جس سے دوسرے مسلمان کو تکلیف ہو،  ہاتھ سےجانے نہیں دیتے۔ ہم نفلی روزے بہت اہتمام کے ساتھ رکھتے ہیں۔ لیکن جب غریب اور یتیم کے ساتھ بھلا کرنے کا ٹائم آتا ہے۔ تو ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ظاہری طور پر اور سوشل میڈیا پر ہم بہت نیک اور صالح بنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جس پے  میرا رب فیصلے کرتا ہے۔

وہ نیتیں  بہت گندہ اور حاسد سے بھرے ہوئے ہیں۔۔۔
ہم فیصلوں اور جھگڑوں میں حق گواہی کے بہت بڑے شیدائے ہیں لیکن جب فیصلہ ہمارے کسی اپنے یا ہم پر آتا ہے۔ تو پھر حق اور صداقت کو پیچھے چھوڑ کر ناحق اور باطل گواہ کو ڈھونڈتے ہیں ۔ پھر ہم حق اور صداقت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ جب معاملات صحیح نہ ہو ۔ تو عبادات میں بھی مزہ نہیں آتا۔ میں نے بہت سے عبادت گزر بندوں کو برے معاملات والا پایا ہے۔

اللہ فرماتا ہے کہ میں نے جن و انس کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور ہم کو ایک ایسے امت میں پیدا کیا جس کی پوری زندگی عبادت ہے۔ دن کے 24 گھنٹے ہمارے معاملات جو ہم اپنے نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کے سنت اور اللہ کے احکامات کے مطابق کرتے جاتے ہیں۔ وہ عبادت میں شمار ہونے لگتے ہیں۔۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اپنے معاملات میں بہت صاف اور پاک تھے ۔

جھوٹ،  خیانت اور دکھا دہی سے بالکل پاک تھے۔ بدنی عبادت کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی وہ اعلی مثال تھے۔ لیکن افسوس ہم اپنے راہ سے بھٹک گئے۔ ہم نے اپنا آئیڈیل جس کو بنانا تھا۔ اس کو نہ بنا سکے۔ اور جو قرآن میں لا یشعورن سے مخاطب کی جاتے ہیں ۔ جس کی مثال جانوروں بلکہ جانوروں سے بھی بد تر بیان کیا ہے۔ ان کے پیچھے ہو لئے،  ان کو اپنا آئیڈیل بنایا اور ان کی سوانح عمری میں اپنا ٹائم اور وقت برباد کرنے لگے۔

ہمیں عمر رضی اللہ عنہ کی شجاعت ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت اور رفاقت  کے بارے میں پڑھنا تھا۔ اس کے مطابق اپنی زندگی گزرنا تھا ۔ لیکن افسوس ہم بل گیٹس،  انڈرسن اور دوسرے انگریزوں کو اپنا رول ماڈل بنانے میں مصروف ہو گئے۔۔۔۔۔۔    
دوستوں نماز روزے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے معاملات اللہ کے احکامات اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سنت کے مطابق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :