سفر سفر اور نظر نظر کا فرق

بدھ 30 جون 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

مرشد کو ڈھونڈنے کے لئے گمنام راہوں کے خاک چاٹنے والا چیلا  ہو ، یا ہم جیسے چالیس چراغ عشق کے پڑھنے والے طالب علم،  مرشد کبھی آسانی سے نہیں ملا کرتا،کوئی آنکھ بند کرکے محبوب کو پا لیتا ہے ، کوئی در در  بھٹک کے بھی محبوب سے نہیں مل  پاتا، کوئی علم کے معراج پر پہنچ کر بھی تلاش میں رہتا ہے،  کوئی گاور، ان پڑھ ،کم علم اپنے مرشد کو پالیتا ہے ۔

مرشد کو پانے کے لیے بے نام راستوں کے خاک چاٹنے پڑتے ہیں، پیر  کامل صلی علیہ والہ وسلم کی سیرت کو پڑھنا  اور سمجھنا پڑتا ہے،  پیر کامل صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے احادیث مبارکہ کو اپنانا پڑتا ہے اور سنت مبارکہ پر عمل کرنے کی کوشش، ،،،
 حضرت واصف علی واصف صاحب کے اقوال کو زندگی میں جگہ دینی پڑھتی ہے ، حرام سے خود کو دور رکھنا پڑتا ہے،  حرام چاہیے کمائی میں ہو، اقوال میں ہو افعال میں ہو ،یا گفتار اور رشتوں میں، سے خود کو بچانا ہی تلاش میں مدد دیتی  ہے،  ہم مال کے حرام کے بیان کو تو روز سنتے ہیں لیکن کوئی مرشد ایسا ہو جو واصف علی واصف صاحب کی طرح آنکھوں کی حرام، ہاتھ ، پاؤں حتی کہ حرام سوچوں اور وسوسوں  کے بارے میں ہمیں سکھائے   ، کوئی مرشد ایسا ہو، جو ہم کو اپنے رنگ میں رنگ لے ، ہمیں دنیاوی کامیابی ،دنیاوی لالچ، دنیاوی دکھاوی سے بے زار کر دے ، کوئی مرشد ایسا ملے جو اللہ کے عذاب اور غصے کے بجائے رحمت والا معاملہ ہمیں سکھائے ، کوئی تبریز بن کے ہاتھ تھامے ، کوئی دنیاداری کے علاوہ کچھ بات کریں، ،  
دل ٹوٹ جاتا ہے آنکھیں بھیگ جاتی ہے جب دنیا کی قلیل سی زندگی میں جینے والا بڑی بڑی باتیں کرتا ہے،  دل میں ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے جب منافقت کا سامنا ہوتا ہے،  کیوں ایک بے نام سا بے جان سا اور بے اختیار سا انسان خود کو خدا سمجھنے لگ جاتا ہے؟،  سازشیں کرتا ہے منصوبے بناتا ہے،  کیوں ہر مرشد اور صوفی کے مقدر میں رسوائی اور بے عزتی لکھی جاتی ہے؟،  کیوں کسی صوفی کو، اللہ والے کو محدود کیا جاتا ہے؟،  کیوں کسی عاشق کو مخصوص لباس مخصوص کردار میں تلاش کیا جاتا ہے؟ کیوں ہماری تلاش کا رخ دنیا اور دنیا کے مشہور اور بدترین کفار کی طرف موڑ دیا جاتا ہے؟ کیوں ہم گوروں کے طریقوں سے مرشد تلاش کرتے ہیں؟ کیوں ہماری تنہائی بے داغ نہیں رہتی؟ کیوں ہماری آنکھیں حرام دیکھ دیکھ کے نہیں تکھتی؟ اور کیوں ہماری زبان غیبت کر کر کے بڑی نہیں ہوتی، ؟۔

(جاری ہے)

۔
ہم انسان نہیں انسانیت سے بہت آگے نکل چکے ہیں،  ہمیں ہمارے علاوہ ہر کسی میں عیب اور کمی نظر آتی ہے،  ہم جج بن گئے ہیں ہم سیکنڈز میں لوگوں کو پرکھتے ہیں ان کے خوبیوں کو پرے رکھ کے ان کے کمیوں اور نادانیوں کی وجہ سے ان پر بد کار ، گناہگار،  اور پتہ نہیں کیا کیا الزامات لگاتے ہیں،  ہم ہر وقت محبت محبت کرتے ہیں، لیکن ہم محبت کے تقاضوں،  محبت کے خلاصوں سے بے خبر ہے۔

محبت میں تو محبوب کی خوبیاں دیکھی جاتی ہیں،  محبت میں تو محبوب کی نقائص بھی ادا لگتی ہے،  اور محبت جب اللہ کے لئے اللہ کے مخلوقات سے اور پھر اشرف المخلوقات سے ہو تو پھر تو ہر مسلمان میں ہمیں خوبیاں ملے ۔لیکن ہم مرشد نہیں ہمیشہ ابلیس کے تلاش میں رہتے ہیں،  ہم ہمیشہ خود کو مرشد مان کے شاگردوں ،چیلوں کے تلاش میں رہتے ہیں،  مرشد کو پانا رومی کا کام تھا یا آشفاق احمد صاحب جیسے محبت کرنے والے انسان کا۔

جب چیلا مولانا جلال الدین رومی ہو تو مرشد بھی شمس تبریز جیسا ملے گا ، اور اگر ہمارے جیسا گناہگار مرشد کی تلاش میں نکلے گا تو ابلیس کو پالے  گا ، وہ اسے صرف بددیانتی،  اور بےراہروی ہی سکھائے گا، تلاش سے پہلے خود پر محنت کرنی ہوتی ہے،  خود کو محدود کرنا ہوتا ہے،  تنہائی صاف کرنی پڑتی ہے،  الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،  نہ کی ہوئے جرموں کی سزا کھاٹنی پڑھتی ہے،  بے عزتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،  متکبر اور بے راہ کے  الزامات کو برداشت کرنا پڑتا ہے،  بے وجہ بدنامی، بے وجہ گمنامی برداشت کرنی پڑتی ہے تبی جا کے پاک صاف اصلی والا مرشد اور ساتھی ملتا ہے۔

۔۔۔
جب استاد نہیں ہوگا تو شاگرد کہاں سے آئے گا اور جب شاگرد کی پیاس نہیں ہوگی تو مرشد کیوں کر ملے گا ، دنیا تلاش ہے کوئی مرشد کی تلاش میں ہے تو کوئی عیش و عشرت کی تلاش میں کوئی تنہائی میں روتا ہے، اللہ سے باتیں کرتا ہے،  تو کوئی تنہائی میں لوگوں کے رویوں اور باتوں کو پرکھتا ہے ، بدلے میں کسی کو دل کی اطمینانیت نصیب ہو رہی ہے تو کسی کو بے قراری اور بھاگ دوڑ والی زندگی،  کوئی خود مرشد بن کے چیلوں کی تلاش میں ہے اور کوئی چیلا بن کے مرشد کی، بس ایک فلم ہے جو چل رہی ہے،  اور کامیاب وہی رہتا ہے جس کا پیر جس کا رہنما جس کا مرشد پیر کامل صلی علیہ والہ وسلم  ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :