کامیابی کی شروعات

جمعہ 10 ستمبر 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

بڑے لوگوں کے ماروی انصاف معاشرے سے کبھی کبھی دل اکتا جاتا ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی مسلے سے دو چار خود کو مظلوم جبکہ زمانے کو ظالم ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے  ۔ کوئی عدالتی نظام سے نالا تو کوئی انتظامیہ کے زخموں کا چُور ہے۔ کوئی ناکردہ گناہوں میں قید زندگی کے دن گزار رہا ہے۔ تو کوئی اپنے خواہشات اور حسد کی جیل میں عمر قید  کی سزا کاٹ رہا ہے۔

ہر طرف ایک ناامیدی پریشانی اور افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ کوئی غربت کے ہاتھوں دو وقت کی روٹی کے لیے دوڑ رہا ہے تو کوئی دو وقت کی روٹی کو ہضم کرنے کے لئے بھاگ رہا ہے۔ کوئی زمانے کا ولی بزرگ نیک انسان اپنی تلاش سے محروم ہے تو کوئی بہروپیا ولیوں کے کرامات کو فروخت کر رہا ہے۔۔۔
کوئی اللہ کا دوست اللہ سے باتیں کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

راز و نیاز کر رہا ہے۔

اپنے رب سے اپنی عاجزی اور محرومی کا تذکرہ کر رہا ہے۔ تو کوئی ہماری طرح گناہ پے گناہ کر کے اس کے لیے علت اور بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ کوئی مخلوق خدا کے خدمت میں لگا ہوا ہے۔  وہ دنیا سے بے نیاز ، داد اور حوصلہ افزائی سے بے پروا اپنا بدلہ اپنی نامہ اعمال میں درج کر رہا ہے۔ تو کوئی لوگوں کے کمزوریوں اور پریشانیوں کو کیش کر رہا ہے۔ کوئی اپنی ذات کے عیوب کے پیچھے لگا ہوا ہے تو کوئی اپنی خوبیوں کو بیان کرنے سے نہیں تھکتا، کوئی اگ میں کود رہا ہے تو کوئی اگ برسا رہا ہے۔

۔۔۔۔
دنیا کا نظام چل رہا ہے ہر کوئی اپنے کردار میں مست ملنگ بنا ہوا ہے۔ بڑی بڑی باتیں بڑے بڑے منصوبے سوچیں تدبیریں کر رہا ہے۔ یہاہی سوچ کہ زندگی صرف بنگلے بنانے گاڑیوں پر گاڑیاں خریدنے کے لیے عطاء ہوئی ہے ہر کوئی بھاگ دوڑ میں مصروف دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اللہ کے ولی خوار ہو رہے ہیں ذلیل ہو رہے ہیں۔مشکلات زندگی،  معاملات دنیا سے نبردازما غربت اور کم آمدنی سے ضروریات زندگی کو کم سے کم تر کر رہے ہیں لیکن پھر بھی گزارا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔

علماء فقہا نوکروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ، اللہ کے دین کو ہم تک پہنچا رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ کوئی قدر کوئی وقعت نہیں۔ہم وزیروں مشیروں کے  تو وفادار اور ساتھی ہے لیکن علماء دین اور اساتذہ کرام کے ہم مالک بنے بیٹھے ہیں۔
ہم ریاست مدینہ کے خواب دیکھنے والے مطففین    بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے اعمال مشرکین مکہ ،منکرین اسلام سے بھی بد تر ہیں۔

ہمارے کارنامے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرنے کے نہیں بلکہ کراما کاتبین کے رجسٹروں میں درج کرنے کے قابل ہیں ۔ ہمارا بلڈپریشر غریب کے سامنے بہت جلد ٹیک آف کر جاتا ہے جبکہ امیر کے سامنے ہمیشہ نارمل رہتا ہے۔ ہم دوسروں سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی ہر نیکی تدبیر، تشہیر لگتی ہے جبکہ اپنی گناہوں کو ہم اعمال صالحہ میں شمار کرنے سے نہیں شرماتے۔

کونسی وہ برائی ہے جس کی وجہ سے اگلی قومیں غرق ہوئے تباہ ہوئی ہم میں نہیں۔ کونسا وہ عمل ہے جس کو ہم ذریعہ نجات سمجھے۔۔
آج سے ابھی سے او عہد کریں کہ اپنے رب کی طرف جانا ہے۔ اپنی تلاش کرنی ہے، اپنی گناہوں پے رونا ہے ۔ اپنی دنیا میں تبدیلی لانی ہے۔ اپنے دل پر اپنے سیرت وصورت پر محنت کرنی ہے ۔ اپنے دل سے شروع کرتے ہیں۔ اپنا احتساب شروع کرتے ہیں۔

اپنے اپ میں تبدیلی لانی ہے اپنے آپ کو ریاست مدینہ والوں کی طرح بنا کے خود کو ایک اینٹ یا  ابتدا  مان کے ریاست مدینہ کا بنیاد رکھتے ہیں۔ اج سے ابھی سے گزرئ ہوئی زندگی پر اپنے رب سے توبہ اور معافی مانگتے ہیں، ابھی سے ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ جس میں یہ عذر نہ ہو کہ فلاں بہت برا کام کرتا ہے اگر میں بھی تھوڑا غلط کرو تو کیا مشکل ہے۔

اج سے جنت،  جہنم کے ٹکٹ بنٹنا بند کرتے ہیں۔ اپنی فکر شروع کرتے ہیں۔ مخلوق خدا سے محبت صلحہ رحمی اور احساس شروع کرتے ہیں۔
اور اج اپنے رب سے ایک وعدہ کرتے ہیں کہ رب کریم ہم ساری دنیا میں تبدیلی نہیں لاسکتے لیکن اپنے آپ میں اپنی دنیا میں ضرور تبدیلی لانی کی کوشش کرینگے پروردگار کوئی مجھ سے حسد رکھے مجھ سے نفرت کرے مجھے غلط سمجھے،  مجھے گنہگار خطاکار گردانے میں نے اس سے پیار سے محبت سے نرمی سے بات اور معاملات کرنی ہے۔

میرے رب میرے اختیار میں تو کچھ نہیں سب کچھ تیرے اختیار اور قبضہ قدرت میں ہے تو مجھے ہمت دے تو مجھے حوصلہ دے کہ اپنے نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کے اس سنت کو زندہ کرسکو جس میں وہ پتھر برسانے والوں کے لیے دعا کرتے ہے ۔ رب کریم ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ جب مخلوق خدا کافیصلہ میرے ہاتھ میں ائے تو انصاف سے فیصلہ کرینگے ، رب العالمین ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے جسم اپنے اخلاق اپنے دل سے ہر وہ بات نکل دینگے جسے تو ناپسند کرتا ہوں۔
یا اللہ ہمیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شمار کر، اے اللہ ہمیں تبدیلیاں لانے والوں میں شمار کر، میرے رب ہمیں کوشش کرنے والوں میں شمار کر ، ہمیں ہمت دے ہمیں طاقت دے کہ ہم اپنی دنیا اپنی ذات میں تبدیلی لاسکے ۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :