برف کی سفید چادر یا کفن

منگل 11 جنوری 2022

Asaad Naqvi

اسعد نقوی

ملکہِ کوہسار جہاں برف کی سفید چادر سیاحوں کے لیے کفن کی چادر بن گئی۔ ابھی تک 23 افراد کی ہلاکتوں کی خبریں  آ چکی ہیں۔ مری کو آفت  زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ ان ہلاکتوں کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے ؟ کیوں   23 افراد برف کے درمیان گاڑیوں کے اندر مر گئے ؟؟ جب ایسے کیسز  سامنے آتے ہیں تو ان کی کئی وجوہات بھی سامنے آتی ہیں۔ حالیہ ہلاکتوں  کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔

اس واقعہ سے پہلے جب مری میں برف باری  شروع ہوئی۔ پہاڑوں پر برف کی چادر بچھ گئی تو وفاقی وزیر فواد چوہدری  نے ایک ٹویٹ کیا جس کے مطابق ایک لاکھ گاڑیاں مری اور دیگر شمالی علاقہ جات میں داخل ہو چکی ہیں۔ سیاحت  کے ذریعے ملک میں خوش حالی آئے گی۔ ملک کی آمدنی میں اضافہ ہو گا۔ اس ٹویٹ اور مری میں برف باری کے مناظر نے پاکستانیوں کو مری کی سیر کرنے پر اکسایا۔

(جاری ہے)

وہ مری جہاں کسی ویک اینڈ پر کچھ گاڑیاں زیادہ آ جائیں تو سڑک بلاک ہو جاتی ہے۔ مری میں نظام زندگی مفلوج ہو جاتا ہے ۔عام مشاہدے کے مطابق مری میں 40 ہزار سے زائد گاڑیاں داخل ہوجائیں تو مری کی  سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ کچھ نیا نہیں  ہے  بل کہ پرانا ہے۔ مری جانے والے افراد جانتے ہیں کہ وہاں کس طرح ٹریفک کا  مسئلہ رہتا ہے۔

  مری سانحہ سے قبل  فواد چودھری  کے ٹویٹ جس پر ایک لاکھ گاڑیوں کا مری میں داخلے کا ذکر ہے اور خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس  وقت  حکومت  نے نوٹس کیوں  نہیں  لیا؟  کیوں حکومت  نے  گنجائش سے زائد گاڑیوں کا مری میں داخلہ  ہونے کے باوجود خراب موسم میں  مزید گاڑیوں کو  داخل ہونے دیا۔ عمران  خان  اور ان کی کابینہ اکثر   بیرون ممالک کی ترقی اور کام یابی یا رویوں پر  بات کرتی نظر آتی ہے ۔

انتظامی امور کے حوالے سے عمران خان اور ان کی حکومت کیا ناکام ہو چکی ہے ؟ بیرون ممالک میں تو ایک فٹ برف پڑ جانے پر شہر بند ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ امدادی ٹیمیں کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق معلوم ہوا ہے  کہ برف باری کا سلسلہ پہلے بھی ہوتا تھا لیکن تب حکومت اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار رہتی تھی۔

پچھلی حکومتیں پہلے سے برف ہٹانے کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ فنڈز جاری ہوتے تھے۔ امدادی ٹیمیں مدد کے لیے میدان میں موجود ہوتی تھیں۔ اس بار حالات کی پیشن گوئی تو پہلے سے موجود تھی۔ برف باری اور برفانی طوفان کی خبر محکمہ موسمیات نے پہلے سے دے دی تھی لیکن متعلقہ اداروں نے کوئی تیاری نہیں کی۔  سونے پہ سہاگہ تو تب ہوا جب وفاقی وزیر کی ٹویٹ اور سیاحوں کی ویڈیوز نے عوام کو مری کی سیر پر اکسایا۔

مری میں پہلے ہی گنجائش  سے زائد گاڑیاں داخل ہوچکی تھیں۔ مزید گاڑیاں داخل ہو رہی تھیں۔ برف  باری کا سلسلہ جاری تھا۔ سیاحوں کو کوئی راہنمائی فراہم نہیں کی گئی۔ نتیجہ وہی ہو ا جس کا ڈر تھا۔ سینکڑوں گاڑیاں برف باری میں پھنس گئیں۔ 23 افراد گاڑیوں میں  ہی  لقمہ اجل بن گئے ۔ یہاں  سیاحوں کی اموات نے مزید  کئی سوال  کھڑے کر دیے ۔ کیا سیاحوں کو  کوئی  ہوٹل یا پناہ  نہیں  ملی  تھی  ؟؟ اگر ان سیاحوں کو کمرے  مل جاتے تو شاید  موسم کی سختی  سے  محفوظ رہتے ۔

جب  تحقیق کی گئی تو  کئی  افراد  نے  بتایا  کہ ہوٹل  مالکان  نے مری میں  رش دیکھ کر منہ مانگے  کرائے مانگنے شروع کر دیے۔ ایک رات کے قیام کا ہوٹل  کے ایک  کمرے کا کرایہ  پچاس  ہزار  روپے تک پہنچ چکا تھا ۔  کچھ  افراد  نے خواتین کے زیور  رکھوا کر ہوٹل میں قیام  کیا تاکہ جان  بچائی جا سکے۔ جن افراد نے     ہوٹل  مالکان کے منہ مانگے  کرایوں کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے گاڑیوں میں رات گزارنے کا سوچا  ان  افراد  کو  گاڑی کے  چلتے ہیٹرز  نے  موت کی وادی میں  موت کی نیند  سلا دیا۔

  اس کی وجہ یہ تھی کہ سلنسر  برف کے اندر دھنس چکے تھے۔ ہیٹر چلنے کی وجہ سے کاربن مونو آکسائیڈ کا اخراج نہیں ہو سکا اور  وہ واپس گاڑی کے اند ر بھر گئی  جس سے سوئے ہوئے افراد گاڑی میں  لقمہ اجل بن گئے ۔ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مری کے ہوٹل مالکان نے جو سفاکیت دکھائی وہ اپنی جگہ،  مری کے دکانداروں نے بھی لوٹ مچا رکھی تھی ۔  ایک انڈا  پانچ  سو روپے اور  پانی  کی  ایک بوتل بھی پانچ سو روپے تک  فروخت ہوتی رہی۔

  ایک  جانب  موسم کی خرابی نے سیاحوں کی زندگی خطرے میں  ڈال دی وہیں  مری والوں کی لالچ نے سیاحوں کو  موت کے منہ تک پہنچا دیا۔  جس  وقت  سیاحوں کی اموات کی خبریں آ رہی تھیں۔ اس وقت بھی وفاقی وزیر فواد چودھری نے ایک  ٹویٹ کیا کہ حکومت  اتنی زیادہ  تعداد میں افراد کی مدد نہیں کر سکتی ۔۔  فوج  نے  اپنی  ذمہ داریاں  نبھائیں اور  سیاحوں کو  ریسکیو کیا۔

برف ہٹانے کا  کام  کیا  اور ابھی تک   فوج  سیاحوں کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔  مری میں ایمرجنسی  نافذ ہے ۔ سیاحت کے فروغ کا شور  مچانے والی  حکومت نے ابھی تک  کوئی مناسب انتظامات نہیں کیے۔ ستم ظریفی یہ کہ ایک جانب ہلاکتوں کی خبریں آ رہی تھی اور دوسری  جانب  مری میں مزید  گاڑیاں  داخل ہو رہی تھیں۔ حکومت مدد کرنے سے انکار کر چکی تھی ۔

صرف  کمبل اور  تھوڑی سی خوراک کا ذخیرہ دیکھ کر  گاڑیوں کو  مری میں داخل ہونے دیا جا رہا تھا۔ حفاظتی اقدامات کہیں نظر نہیں آئے ۔  برف باری کے علاقے میں جانے سے  قبل کچھ احتیاطی تدابیر کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے ۔  حفاظتی اقدامات کے حوالے سے حکومت کو آگاہی مہم  چلانے کی ضرورت تھی لیکن  حکومتی فیصلے  اور  اقدامات سے علم ہوا کہ حکام اور متعلقہ  ادارے خود بھی   حفاظتی اقدامات سے  انجان ہیں ۔

برف باری  والے علاقےمیں جانے والے  سیاحوں کو  چاہیے  کہ  وہ  حفاظتی  اقدامات کے بغیر  برف باری والے  علاقوں میں نہ جائیں ۔  سب سے پہلے    سیاحوں کو  اپنے  پاؤں  کو  خشک اور گرم  رکھنا ہیں ۔  جوگرز  یا لیدر شوز  برف والے علاقوں کے لیے موزوں نہیں ہیں ۔   پاؤں  گیلے ہوجانے سے  سردی  لگ  جانے اور طبعیت  خراب ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔

  اس لیے  ربڑ کے یا واٹر پروف  آرمی  شوز   پہننے  چاہیں ۔ اور جوتوں کے اوپر  پیرا شوٹ کا بنا  کور  بھی چڑھایا جاتا ہے  جس کو  گیٹرز کہا جاتا ہے  اس   کور کی وجہ سے جوتے  گیلے  نہیں ہوتے اور نہ ہی  پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں ۔ جرابوں  کو بھی گیلا ہونے سے بچانے کے لیے  پولیتھین چڑھا لیں ۔ اسی  کے  ساتھ   ساتھ  رین کوٹ  ہر صورت میں  آپ کے پاس ہونا چاہیے  جو  آپ کو برف باری میں  گیلا ہونے سے بچائے   گا۔

   اکثر دیکھنے میں  آیا ہے کہ چادر  یا  اوون کی سویٹر   لے کر  برف باری  میں  انجوائے کیا جا رہا ہوتا ہے  ۔  سر پر پہنی  اوونی  ٹوپی  پر بھی برف پڑ رہی ہوتی ہے ۔  بظاہر تو  یہ  منظر اچھا لگ رہا ہوتا ہے لیکن  جب برف پگھلتی ہے تو  ٹوپی ،سویٹر ،  چادر  گیلی  ہوجاتی ہیں  جس  کی وجہ سے ٹھنڈ  لگ جانے  کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔ ہمیشہ  اچھی  جیکٹ پہنیں  ۔

اس کے  نیچے  بےشک  چار  سویٹرز پہن  لیں ۔ جیکٹ ہمیشہ وہ  ہو جس کے اندر  پرندوں کے پنکھ  ہوتے ہیں  وہ آپ کو سرد موسم  میں  محفوظ رکھتی ہے ۔  سر کو رین کوٹ کی کیپ  یا پیراشوٹ  جیکٹ کے ہڈ سے کور رکھیں ۔ حالیہ  واقعہ میں اموات کی بڑی  وجہ  ایک ہی  جگہ  رکے رہنے  سے  سامنے آئی ہے ۔  برف باری  کے موسم  میں   ایک  ہی  جگہ  نہیں رکے رہنا چاہیے ۔

  جسم کو  متحرک اور  گرم  رکھنے کے لیے  چلنا  بہتر ہے ۔ کسی  محفوظ جگہ  کی تلاش  جاری رکھیں ۔  گاڑی کے اندر بیٹھنے سے جسم سست اور  برف باری میں پھنس جانے سے  جان  جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔  گاڑی کے کم  از کم  ایک دروازے  کے آگے سے برف ہٹاتے رہیں تاکہ آپ  گاڑی  کے اندر  پھنس نہ  جائیں۔ گاڑیوں  کو برف باری  میں پھسلن  سے بچانے کے لیے  ٹائروں پر زنجیر  باندھ لینی  چاہیے ۔

  آپ  کے پاس  ایسی   زنجیر  ہونی  چاہیے جو  ٹائروں  پر باندھی جا سکے۔  اسی طرح  ایک کیمپ،  بیوٹن گیس کا  چولہا اور  سلیپنگ  بیگز   آپ کے پاس ہونا بے حد  ضروری ہے۔  اگر   مری والے واقعہ میں  سیاحوں کے پاس  کیمپ  ، بیوٹن گیس کا چولہا اور سلیپنگ  بیگز ہوتے تو  شاید ان کی زندگیاں محفوظ ہوتیں ۔ گاڑیاں  ٹھنڈ روکنے میں ناکام ہوتی ہیں۔

کیمپ  نسبتاً بہتر ہوتا ہے  ۔ گاڑیوں میں ہیٹر  چلانے سے  برف  سلنسر  میں ہو تو کاربن  مونو آکسائیڈ  موت کی وجہ بن جاتی ہے۔  الیکٹرک  کمبل  جو  بیٹری سے  گرم  ہو جاتا ہے اور آپ کو  برف باری میں محفوظ  رکھتا ہے ۔ چلنے کے لیے  چھڑی آپ کے  ہاتھ  میں ہونی چاہیے تاکہ  برف باری میں  پھسلنے سے  محفوظ رہیں۔ اگر  گرم چائے یا یخنی  کا تھرماس پاس ہو  اور  خشک  خوراک کا ذخیرہ ہو تو آپ برف باری میں ناآگہانی صورت حال سے کافی حد تک مقابلہ کر سکتے ہیں ۔

  بہرحال  مری سانحہ کے  واقعہ میں پی ڈی ایم اے  اور  این ڈی ایم اے کے ساتھ ساتھ نیشنل  ہائی وے  کا عملہ بھی غائب  رہا ۔ حکومتی مشینری کہیں  نظر نہ آئی۔ سیاحت کو تبھی فروغ مل  سکتا ہے جب حکومت سیاحوں کے لیے مناسب سہولیات فراہم  کرے ۔  ہوٹلز  کے کرائے  زائد ہونے کی خبر  وزراء کو تھی تو کیوں حکومت  نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔  الغرض انتظامی غفلت  کئی جانیں  لے گیا ۔

 
آج  قومی اسمبلی اور ہر  فورم پر آواز بلند کی جا رہی ہے ۔  ٹوئیٹر پر    بائیکاٹ مری کا  ہیش۔ٹیگ ٹاپ پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ  کیا حکومت  نے  اپنی  غلطی  تسلیم  کی؟۔ کیا  انسانی  اموات پر  متعلقہ  وزیر  یا   حکومتی  نمائندے نے ذمہ داری  قبول کر کے  استعفیٰ دیا؟؟  کون ہے  سانحہ مری کا ذمہ دار۔۔ مری کا نام  تبدیل  کرنے  سے  تبدیلی نہیں آئے گی بل کہ تبدیلی  کام سے آئے  گی۔ مناسب  اقدامات  اور سہولیات فراہم کرنے سے آئے گی ۔  شاید  کسی کی فریاد حکومت کو  غفلت کی نیند سے جگا دے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :