
وطن سے محبت اور آزادی کا مفہوم
جمعرات 15 اگست 2019

اسعد نقوی
ہمیں آزادی کا صحیح مفہوم اور وطن سے محبت کا طریقہ کار والدین نے سیکھایا تھا ۔۔بچپن میں جب جشن آزادی کا دن آتا تو دن کا آغاز نماز اور قرآن پاک سے ہوتا دادا حضور اس روز خصوصی طور پر تلاوت فرماتے ۔ پھر والد محترم اپنی آواز سے قرآن پاک کی تلاوت کرتے (میرے داد حضور اور والد محترم قراء سبعہ کے قاری ہیں ) اور ہمیں بھی یہی حکم دیا جاتا ۔۔کہ قرآن کی تلاوت کریں ۔ اسے کے بعد پورے گھر کو جھنڈیوں اور جھنڈے سے سجایا جاتا ۔۔ اس کے بعد سفید اجلے کپڑے پہن کر سوسائٹی کے دفتر جاتے جہاں پورے سات بجے پرچم کشائی کی تقریب اور دعا ہوتی ۔گھر آتے تو دادا حضور ہجرت کے واقعات سناتے ۔۔ میرے دادا حضور انڈیا کے شہر جالندھر سے دو کوس دور علاقہ جس کا نام دوکہویا پڑ گیا تھا کیونکہ وہ جالندھر چھاؤنی سے دو کوس دور تھا۔
اس گاؤں کی۔ خاصیت یہ تھی کہ وہ واحد علاقہ تھا جہاں ہندو اور سکھ چاہ کر بھی حملہ نہ کر پائے تھے اس کا قصہ پھر سہی ۔۔اس علاقے میں آج بھی ہمارے آباؤ اجداد کے مزار قائم ہیں جن سے سکھ مسلمان ہندو سب فیض اٹھانے جاتے ہیں اور اس علاقے میں آج بھی ہندو مسلم اکھٹے رہتے ہیں۔ یہ توہمارے بزرگوں کی کرامات ہیں۔۔۔اسی علاقے سے پاکستان ہجرت کرکے آئے تھے ۔تو اس دن دادا حضور ان واقعات سے وطن کی محبت ہمارے دلوں میں جگاتے اور والد محترم علامہ اقبال کی نظموں سے وطن کا اصل مفہوم بتاتے ۔۔۔ اسی دوران گھر میں ہجرت کےدوران شہید ہونے والے شہدا کی دعا مغفرت کی جاتی پھر سکول یا کالجز میں چلے جاتے جہاں میں اور بڑے بھائی سید بدر سعید تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے اور چونکہ دل پہلےہی ان واقعات کی وجہ سے جزبہ جنون کی حدوں کو چھو رہا ہوتا تھا تقاریر میں بھی ان واقعات کا ذکر ہوتا تھا ۔۔ ہر سال تقریری مقابلے جیت کر آتے تو ٹی وی پر ڈیرھ بجے میجر عزیز چھٹی کی ڈاکومنٹری لگا کرتی تھی جو پی ٹی وی پر سال لگاتا تھا۔۔ اس ڈاکومنٹری کو دیکھتے پھر عصر کی نماز کے بعد سوسائٹی میں جشن آزادی کے عنوان سے تقریب کا انعقاد ہوتا تھا ۔اس میں بیوروکریٹس کے بچے جوش وخروش سے حصہ لیتے تھے اس میں بھی ہم بھائیوں کے نام والد محترم پہلے ہی لکھوا دیا کرتے تھے۔۔یہاں بھی مقابلے کے ونر ہم ہی ٹھہرتے۔۔پہلی پوزیشن بھائی کی ہوتی تو دوم میری ۔۔اگر پہلی میری تو دوم بھائی کی ۔۔۔یہ تربیت کا آغاز تھا چونکہ میرے والد محترم اور تایا حضور بھی اپنے دور تعلیم میں تقریری مقابلہ جات میں حصہ لیتے تھے اور یہی روایت ہمارے خون میں بھی شامل رہی ۔۔۔۔۔گھر میں ایک جشن کا سماں ہوتا دادا حضور ہمارے ایوارڈز دیکھتے اور ہمیں چومتے پھر دعائیں دیتے ۔۔۔اس کے بعد والد محترم شام کو ہمیں شہر کی سیر کروانے کے جاتے اس دور میں شہر کی عمارات خوب سجائی جاتی تھیں ۔جب ہم گورنر ہاؤس پہنچتے چونکہ والد محترم اس دور کے موجودہ گورنر کے ساتھ اپنے فرائض منصبی سر انجام دیتے تھے۔ اس لیے سب عملہ والد محترم کو پہچانتا تھا ۔۔ دوسرا والد محترم عملےکا خیال رکھا کرتے تھے اس لیے گارڈز والد محترم کی عزت کیا کرتے تھے ۔۔۔جب ہماری موٹر سائیکل گورنر ہاؤس کے پاس پہنچتی تو گارڈز عزت کے ساتھ سیلیوٹ کرتے اور گیٹ کھولتے تو والد محترم موٹر بائیک وہیں روک دیتے اور ہمیں حکم دیا جاتا موٹر سائیکل سے اترو اور گارڈ انکل سے سلام کرو انہیں سیلوٹ کرو ۔۔۔یہ وہ تربیت تھی جس سے بچوں کو بڑوں کا احترام کرنا اور چھوٹے عملے کو عزت دینا بھی شامل تھا ۔۔۔جب ہم سلام کرتے اور سیلیوٹ کرتے تو یقین مانیے گارڈز کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ۔۔وہ والد محترم سے گلے ملتا ۔۔پھر کہتا سر جی بچوں کو گورنر ہاؤس دیکھا لائیں ۔میں اتنی دیر میں آپ کا دفتر کھولتا ہوں چائے تیار کرواتا ہوں ۔۔۔۔ہم گورنر ہاؤس جاتے سیر کرتے موجودہ گورنر اگر وہ کسی تقریب میں نہ گئے ہوتے تو ان سے ملتے بیگم گورنر سے ملتے ۔۔انہیں سلام کرتے۔ پھر والد محترم کے افس آجاتے وہاں تھوڑی دیر والد صاحب کے ساتھ بیٹھتے تب والد صاحب کہتے کہ آج تو میں یہاں ہوں اور یہ گارڈز دروازہ کھولتے ہیں آپ گورنر ہاؤس آتے ہیں ۔۔مزہ تو تب ہے جب میں گورنر ہاوس کے عملے کا حصہ نہ ہوں اور تم بھائی یہاں عزت و احترام سے بلوائے جاو اور احترام کے ساتھ گورنر کے ملاقات کرو اپنی پہچان لے ساتھ یہاں کی سیڑھیاں چڑھو۔۔۔۔ ۔۔خدا نے میرے والد محترم کی خواہش بھی پوری کی۔۔ہم۔دونوں بھائی اب اپنی پہچان کے ساتھ گورنر ہاؤس کی سیڑھیاں چڑھ کر گورنر سے ملاقات کرتے ہیں ۔۔۔۔۔خیر جب شہر لاہور کی سیر کرکے گھر آتے تو تھک ہار کر سوجاتے تو اگلے دن سب سے پہلا حکم یہ ہوتا کہ ان جھنڈیوں اور جھنڈے کو احترام کے ساتھ اتار کر سنبھال لو کوئی ایک۔بھی جھنڈی ضائع نہ ہو ۔۔پاوں کے نیچے نہ آئے اسی جھنڈے کو سر بلند رکھنے کے لیے کئی جوان شہید ہوئے ہیں ۔۔۔اج ہم نوجوانوں کی ٹولیاں دیکھتے ہیں جو شہریوں کو اذیت میں مبتلا کیے رکھتے ہیں وہ آزادی کا مفہوم کچھ اور ہی سمجھتے ہیں جبکہ ہمیں آزادی کے دن یہ سمجھایا جاتا تھا کہ تم اس ملک کا مستقبل ہو اپنی پہچان بناؤ ۔۔عزت و احترام دو پیار و محبت بانٹو ۔۔جبکہ آج کی نسل کو ناجانے کیا سبق دیا جا رہا ہے خواتین کے ساتھ بدتمیزی ۔ازادی کا مطلب ون ویلنگ اور شور شرابہ ۔۔گالم گلوچ ۔۔خدارا نئی نسل کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کریں انہیں بتائیں کہ اپنی پہچان کیسے بنانی ہے انہیں مقصد حیات دیجیے ۔۔۔انہیں عزت و احترام کرنا سیکھائیں تاکہ ملک عزیز ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔۔
(جاری ہے)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.