ہوس کے پجاری

بدھ 18 اگست 2021

Asaad Naqvi

اسعد نقوی

میں پچھلے کئی برسوں سے کرائم شوز کر رہا ہوں ہر طرح کا جرم دیکھ چکا معصوم زینب سے بھی پہلے سے کئی  زیادتی کیسز کو رپورٹ کرچکا  ہوں ۔متاثرہ بچیوں سے مل کر دکھ بھری داستان سن چکا ہوں ہر ریپ کیس یا پھر خواتین سے بدتمیزی کا کوئی بھی واقعہ سامنے آتا ہے تو ہر کوئی لعن طعن کرتا نظر آ جائے گا. میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ معاشرہ سدھر جائے گا لوگوں میں شعور ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جنسی زیادتی یا بدتمیزی اور چھیڑ چھاڑ غلط ہے لیکن کل رات مینار پاکستان لاہور کی ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جنہون نے شہر لاہور ہی نہیں پورے ملک کی خواتین  کے دلوں میں خوف بھر دیا میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس بھی لڑکی نے وہ ویڈیو دیکھی ہو گی وہ کانپ گئی ہوگی وہ جنسی بھیڑیوں کے معاشرے میں گھر سے باہر جاتے ڈررہی ہو گی۔

(جاری ہے)

جس  طرح  اس  لڑکی کے ساتھ ہوا میں  نے   اپنے  صحافتی  کیرئیر میں  ایسا شرمناک واقعہ نہیں دیکھا ۔
وہ ویڈیوز جشن آزادی مناتے افراد کی ہے جو چودہ اگست کا وقوعہ ہے. ایک یوٹیوبر لڑکی عائشہ اکرم  مینار پاکستان پر پاکستانی قوم کا چہرہ دیکھانے آئی تھی اس قوم کا جوش و جذبہ ریکارڈ کرنا چاہتی تھی ۔ یوم پاکستان  پر   یادگار  پاکستان کی  تاریخ   بتانے آئی  تھی ۔

یوم آزادی  کی مناسبت سے  سبز  لباس  پہنے   مینار پاکستان  جشن آزادی منانے  آئی تھی ۔ لیکن وہاں جو  ہوا   وہ  بیان  کرنا   دشوار ہے ۔ اس  لڑکی نے عین اس مینار پاکستان کے سائے میں جنسی بھیڑیے دیکھے ہیں. جس مقام پر کلمہ کی بنیاد پر آزادی کا نعرہ لگایا تھا وہاں اسی کلمے کی توہین کرنے والے چار سو جنسی بھیڑیے تھے  مینار پاکستان کا تقدس، آزادی کا مفہوم اور عورت کے سر کی چادر کی توہین کی گئی۔

یقین جانیے  میں وہ ویڈیو بار بار دیکھ چکا ہوں   کہ شاید چار سو افراد  میں سے کوئی تو مرد ہوتا جو اس بیٹی کی حفاظت کرتا۔  چار سو جنسی بھیڑیے ایک تنہا لڑکی کی عزت و آبرو کو تار تار کرتے رہے کوئی مرد آگے نہیں بڑھا کسی نے لڑکی کو نہیں بچایا۔ لڑکی  کو  چار سو مردوں نے مل کر  برہنہ  کیا ۔اس  کے وجود کو  نوچا گیا ۔ کیا یہ آزادی ہے کہ لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کرنے جنسی درندوں کا غول آجائے۔

میں تو ان چار سو افراد کو مرد تو دور انسان بھی نہیں سمجھتا۔ پولیس  سے شکوہ تب ہو گا جب پولیس چار سو افراد کو گرفتار نہیں کرے گی  ۔ اس  وقت پولیس  کو  دو سے تین بار  مدد کے لیے  کال کی گئی  لیکن  رش  ہونے کی وجہ سے پولیس  نہیں پہنچی  ۔ سوال یہ  ہے  کہ  کیا مینار پاکستان  کی سیکورٹی  پولیس کی ذمہ داری نہیں ۔  خدانخواستہ  جشن آزادی پر  ہزاروں  شہریوں  کی زندگی  کو  خطرہ ہوسکتا تھا ۔

فی الحال تو مجھے مینار پاکستان پر موجود ہر شخص سے شکوہ ہے کہ انہوں نے جنسی درندوں کو روکا کیوں نہیں۔ چار سو افراد کو ہزاروں  افراد  باآسانی   روک  سکتے تھے لڑکی کو برہنہ ہونے سے بچا سکتے تھے ۔سبز پرچم کی مناسبت سے  پہنے جانے والا لباس  ان درندوں  نے  پھاڑا  جو  جشن آزادی  منانے یادگار پاکستان آئے تھے ۔ ایسے  حیوانوں  کو  کس نے یہ حق دیا کہ وہ  آزادی  کے نام  پر  لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں ۔

  یقین جانیے یہ  صورت حال ہے تو اب کؤئی لڑکی گھر سے باہر نہیں نکلے گی ،خوف اس قدر پھیل چکا ہے کہ لڑکیاں جوکہتی ہیں سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں ہوس کے ۔ وہ کیسے نہ کہیں چار سو مردوں نے ایک لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے،حکومت پاکستان کو آزادی کا اصل مفہوم واضح کرنا ہوگا. باجے بجانا یا سائلنسر نکال کر بائیک چلانا آوازیں کسنا لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا یا قائد اعظم کا میک اپ کرکے مزار قائد پر نقل اتارنا  کسی بھی صورت آزادی نہیں۔

آزادی کا دوسرا نام تحفظ فراہم کرنا ہے۔ آزادی کامطلب  اپنی  حدود و قیود کا خیال رکھنا ہے ۔ چار سو جنسی بھیڑیوں کا  ایک نہتی لڑکی پر ٹوٹ پڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہی ہوس کے پجاری اپنی ماں بہن اور بیٹی کو بھی اسی گندی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے.. یہ ایک کیس نہیں مینار پاکستان اور کلمے کے تقدس کا سوال ہے. عورت کی چادر اور عزت و آبرو کے تقدس کا سوال ہے۔

۔ کئی افراد  اس بات کو دلیل  مان  کر  اس واقعہ کو درست کہہ رہے کہ لڑکی تنہا گئی  تھی یا پھر  اس کو مینار پاکستان  جانے کی کیاضرورت تھی ۔  اس سوال کا  واضح جواب ہے  کہ کیا مینار پاکستان  صرف  مردوں کے لیے ہے ؟ پبلک  مقام پر کوئی بھی  جا سکتا ہے ۔  یادگار پاکستان پر جشن آزادی  منانا سب کا حق ہے ۔ ہونا تو  یہ چاہیے  کہ اقبال  گریٹر پارک ہو یا کوئی بھی  ایسا پبلک مقام وہاں   فیملیز کے بغیر  داخلہ  ممنوع ہو تاکہ   ایسے  جنسی درندے    گریٹر اقبال پارک میں داخل ہو کر اقبال کے نظریے ، مینار پاکستان  کی حرمت   اور عورت کی  چادر کے تقدس کو پامال نہ کرسکیں ۔

  عائشہ  اکرم  کے ساتھ  جو ہوا   وہ  الفاظ میں  بیان  نہیں کیا جاسکتا  لیکن  اس  کے دکھ درد کو ہر غیرت مند شخص محسوس کر رہاہے ۔   اگر آج  اس بات کو جواز مان لیا جائے کہ  عائشہ  کو ہجوم  والے مقام پر نہیں جانا چاہیے تھا  تو  پھر  یاد رکھیں  بازار بھی پرہجوم ہوتا ہے ۔  ایسے ہوس کے پجاری پھر  اسی  جواز کو بنیاد بنیاد بنا کر  بازار  ، سکول  ،  یونیورسٹی   ہر جگہ  لڑکیوں  کی  عزت  کو  سرعام  اچھالیں  گے ۔۔  کوئی لڑکی   گھر  کے باہر محفوظ نہیں ہوگی  ۔  ان  ہوس پرست   گروہ  کو  مینار پاکستان  کے  سامنے سزا دینی  چاہیے  تاکہ  مینار پاکستان   اور عورت کی چادر کا تقدس  بحال رہے ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :