رمضان ہمارے حفاظ کے نام۔۔۔۔۔

جمعرات 16 اپریل 2020

Asaad Naqvi

اسعد نقوی

آج وہ سب موٹیویشنل سپیکرز کہاں ہیں جو مثبت سوچ پروان چڑھانے کے دعویدار تھے ۔۔میں پچھلے کئی ہفتوں سے دیکھ رہا ہوں کسی موٹیویشنل سپیکر نے مثبت راہ نہیں دیکھائی ۔۔۔ہمارے ملک میں اس وقت کرونا کی وجہ سے جو صورتحال ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں ابھی بھی اس حق میں نہیں ہوں کہ۔مساجد اور کاروباری مراکز کھولے جائیں۔مجھے ذرا علما بتائیں جب شام میں وبا پھیلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے اس شہر میں آنے جانے سے منع فرما دیا تھا توکیا اس وقت شام کے لوگ غذائی ضروریات کے لیے بستی سے باہر نکلے تھے ؟ کیا کاروبار کے لیے اس علاقے کو چھوڑا گیا تھا ؟ اگر نہیں تو پھر اس لاک ڈاؤن کو علما کرام سنت سمجھ کر عمل کیوں نہیں کرتے اب وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے میں سعودی عرب یا ایران کی مثال نہیں دیتا لیکن ہم سنت سمجھ کرگھروں میں قیام کر سکتے ہیں آپ سب یہ بتائیں مساجد کھولنے کی بات ہو رہی جب کہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز کھا کر بھی مسجد آنے سے منع فرمایا تاکہ۔

(جاری ہے)

پیاز کی بو کسی کو ناگوار نہ گزرے تو یہاں جب وبا کے عالم میں ہم۔مساجد جائیں گے اور بعد میں انتظامیہ اس بات سے مساجد کو دھوئے گی کہ کوئی کرونا کا مریض نہ آیا ہوں جگہ جگہ سپرے کیا جائے گا مسجد کے تقدس اور پاکیزگی کے بارے میں دلوں میں وسوسے پیدا ہوں گےکہ جہاں سجدہ کیا جا رہا ہوسکتا ہے وہاں کسی کرونا کے مریض نے سجدہ کیا ہو ۔۔۔ان۔وسوسوں کا کیا حل ہے ؟ آپ بازار جائیں تو ایک دوکاندار چند ہزار کی دیہاڑی کی خاطر کئی افراد سے بات چیت کرے گا تو اگر کسی کرونا وائرس سے متاثرہ شخص نے اس کی کسی چیز کو چھو لیا اس کے بعد دوسرے افراد نے بھی چھو لیا یا دکاندار نے پکڑا تو وائرس منتقل ہو جائے گا ۔

۔۔ابھی صورت حال کنٹرول میں ہے مگر حکومت کے بقول اگر یہ پھیل گیا تو ہمارا صحت کا نظام ہی فلاپ ہوجائے گا ہم بچا نہیں پائیں گے اسلام تو یہ کہتا ہے کہ خود کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ پھر ہم کیوں خود کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ۔۔ کل علما نے مساجد کھولنے کا اعلان کیا ہے مجھے علما کی تقاریر سے یہ سمجھ آئی کہ کچھ علما کی گرفتاری کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ۔

کیا علما صرف چند علما کو رہا کروانے کے لیے حکومتی فیصلے کی نفی کرتے ہوئے مساجد کھول رہی ہے یا پھر رمضان المبارک کی آمد اور نمازیوں کا مساجد نہ آنا انہیں اس خطرے سے آگاہ کر رہا ہے کہ۔رمضان المبارک میں سال بھر کا چندہ جمع نہیں ہوگا تو مساجد کا انتظام سال بھر کیسے چلے گا؟؟  اسلام اتنا سخت نہیں ہے اسلام میں گنجائش باقی ہے وبا کے اس موسم میں حکومتی فیصلے کو تسلیم کرنے کی اجازت شریعت دیتی ہے ۔

۔۔اپ علماء سمیت نمازی حضرات بتائیں کہ عموما مساجد میں کتنی صفیں نمازیوں کی ہوتی ہیں دو ،چار یا پھر چھ ؟ یہ عام روٹین کی بات ہے لیکن جب سے مساجد پر مشروط طور پر جماعت کروانے کا اعلان ہوا چار سے پانچ افراد کی جماعت ہوگی ۔ تب سے تقریباً ہر گھر سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے ہر گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جاتی ہے اس طرح میرے خیال میں وبا کے ان دنوں میں آپ کے محلے کی ایک مسجد پر شرائط ہیں تو اللّٰہ نے دوسرا حل بتا کر ہر گھر کو چھوٹی مساجد کا عارضی درجہ دیا ہوا ہے آپ یہ سوچیں ہر گھر سے اللّٰہ کو پکارا جا رہا ہے جو نمازی نہیں ہیں وہ بھی گھر میں جماعت کے شوق شوق میں اذان بھی دے رہے اور سجدہ ریز بھی ہورہے ہیں ۔

۔۔کاروباری حضرات کی مشکلات ہیں تو وہ ان کی زندگی کو بچانے کے لیے ہیں آج آپ گھر بیٹھ کر کچھ دن کاروبار بند کردیں گے تو چند روز بعد دوبارہ کاروبار بحال کر لیں گے لیکن اگر آج آپ کو کرونا وائرس ہوجاتا ہے اور یہ وبا آپ کو نگل جاتی ہے تو آگے کئی برس آپ کے پیارے کاروبار تو دور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے آپ کے بغیر آپ کے اپنے بے سہارا ہو جائیں گے تب ان کا کیا ہوگا ؟؟ خدارا خود کو ہلاکت میں مت ڈالیں اور حکومت کو چاہیے وہ راشن ہو یا پیسے کسی بھی صورت سے غریبوں کا خیال رکھے ۔

۔۔۔۔۔چند دن قبل کا واقعہ ہے میں نے اپنے مالی سے پوچھا پانی پیو گے یا چائے ۔۔بھوک ہے تو بتاو کھانا لگواتا ہوں (یہ تربیت میرے والدین کی ہے کہ ہمارے گھر کا بچہ بچہ  ملازمین کو عزت دیتا ہے پانی بھی دینا ہو تو احترام لازم ہے اور ان کیضروریات کا خیال بھی رکھتا ہے )میرے مالی نے کہا صاحب آپ کس دنیا میں رہتے ہیں آج کل تو کوئی ہم سے پانی بھی نہیں پوچھتا اکثر گھر والے تو دروازہ ہی نہیں کھولتے وہ دیکھیں میری سائیکل پر پانی کی بوتل ہے جو میں نے پچھلے گھر میں لان کو پانی دیتے چپکے سے بھری تھی۔

۔پھر کہنے لگا صاحب ایک مہربانی کر دیں حکومت جو بارہ ہزار دے رہی ہے وہ دلا دیں میں نے کہا وہ تو بقول حکومت کے بہت شفاف معاملہ ہے آپ آئی ڈی کارڈ نمبر وغیرہ مطلوبہ نمبر پر میسج کر دیں تو مالی کہنے لگا صاحب ہمیں تو یہ موبائل صرف اس حد تک آتا ہے لال بٹن سے کال کٹ جائے گی ہرے بٹن سے بات ہوجایے گی مجھے حیرت ہی نہیں رونا بھی آیا حکومت ان غریبوں تک کیسے پہنچے گی ۔

ابھی کل کی بات ہے مجھ سمیت بلاگرز کا ایک پورا گروپ جو سیون جی بلاگرز کے نام سے مشہور ہے اس گروپ میں ہماری کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ کس ایشو پر بات کرنی چاہیے کس ایشو پر لکھنا چاہیے اس حوالے سے ہم مختلف ورکشاپ اور مختلف لائحہ عمل طے کرتے ہیں اسی سلسلے کی ایک کڑی کے تحت ملک بھر کے بلاگرز کو اکھٹا کرکے جماعت اسلامی کےامیر سراج الحق سے ویڈیو لنک کے ذریعے رابطہ کیا گیا اس ویڈیو لنک کی میٹنگ میں ملک بھر سے بلاگرز شامل تھے وہیں ہم نے کرونا کے حوالے سے بات چیت کی تلخ سوالات بھی کیے الخدمت فاؤنڈیشن کے کام پر سوال بھی اٹھائے اور سراج الحق صاحب نے ہمارے تسلی بخش جوابات دیے یہ دو گھنٹے کی میٹنگ تھی اس میٹنگ میں سراج الحق صاحب نے بھی اقرار کیا کہ حکومت لاک ڈاؤن  کو درست انداز میں نہیں لے رہی نہ ہی آگاہی پھیلا رہی نہ ہی سختی کر رہی ہے اس وقت موجود صورت حال کے پیش نظر سخت لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے ۔

۔۔۔۔
یہی میرا ماننا بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کو سخت ترین کر دیا جائے جائے تاکہ چہل پہل رک جائے اور کرونا وائرس پر قابو پایا جا سکے  جہاں حکومتی کارکردگی سے اپوزیشن نالاں ہے وہیں پر میرے ذہن میں بھی سوالات ہیں لیکن یہ وقت ایسا نہیں ہے  ہمیں اپنی زمہ داری نبھانی ہے ااس لاک ڈاؤن کی صورت میں ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ دفاتر یا کاروبار کے لیے جانے والے افراد ااگر گھر بیٹھ جائیں اور صرف کار میں ڈالنے والے پیٹرول کا خرچ جو بچ رہا ہے اسی سے اپنے ارد گرد کے افراد کی مدد کر دیں تو حکومتی سطح سے پہلے ہم یہ۔

کوشش کرسکتے ہیں کہ کوئی فرد بھوکا نہیں سوئے گا۔۔۔۔۔میرا خیال ہے علماء کو اور تاجران کو ایک بار پھر سوچ لینا چاہیے ۔ حکومتی فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے مساجد اور کاروباری مراکز سمیت تمام دکانیں اور ایکٹیویٹی کو بند رکھنا چاہیے ۔
جہاں تک کاروبار کی بات ہے حکومت آسان شرائط پر قرضے دےکر تاجروں کی مدد کر سکتی ہے اور رہی بات مساجد کی تو مساجد کو پانچ افراد کے ساتھ ہی جماعت کرنے کی اجازت ہو ہمارے علما جس طرح مساجد میں نماز پڑھنے کے لیے اقدامات بتا رہے ییں کہ مساجد میں صف بندی کی بجائے دائیں بائیں فاصلہ چھوڑا جائے آگے پیچھے بھی ایک ایک صف کا فاصلہ چھوڑا جائے اس سے بہتر حل تو یہ ہے کہ  ہمارے اسلامی ملک میں تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی حافظ موجود ہے تو یہ رمضان ان حفاظ کے نام کر دیتے ہیں وہ گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اور نماز تراویح گھر میں پڑھتے ہوئے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو قرآن سنائے اس صورت میں آپ کو جماعت کا ثواب بھی ملے گا اور گھر میں برکت بھی ۔

۔۔اس کے ساتھ دلی سکون بھی۔۔
دیکھیں جب اس طرح کی صورت حال ہو تو وبا کے اس عالم میں شریعت اجازت دیتی ہے آپ گھر میں نماز ادا کریں آپ یہ دیکھیں وبا میں مبتلا شخص کے مرنے پر اسے شہید کا درجہ حاصل ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خود کو ہلاکت میں ڈال دیں غزوات میں تلوار ، ڈھال کے ساتھ زرہ بکتر بھی پہنی جاتی تھی جبکہ صحابہ کو معلوم تھا شہید کا درجہ کیا ہے ۔۔۔شہید ہونے اور جان بوجھ کر موت کو گلے لگانے میں فرق ہے اس لیے خدادا مساجد اور کاروباری مراکز بند رکھیں تاکہ آپ محفوظ رہیں اس وبا کو محفوظ بنانے کے لیے آپ کا اپنا کردار لازم ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :