اپنی اپنی جمہوریت کے آزاد فیصلے

بدھ 28 جنوری 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

کسی زمانے میں پارلیمنٹ کی کمزوری کو ”خاص طاقت“ کا نام دیا جاتا تھا، پھر یہ فقرہ ”لولی لنگڑی جمہوریت کے نام سے سامنے آیا اور آج کل یار لوگ اسے اپنی اپنی جمہوریت بھی کہہ رہے ہیں اور اپنے لالہ جی تو اسے بحرانی جمہوریت کہنا شروع ہوگئے ہیں۔آصف پینٹر والی گلی میں24 گھنٹے ”چائے پانی“ سروس فراہم کرنے والی باوا ٹی سٹال کچہری روڈ پسرور کی ایک خوبی یہ ہے کہ گزشتہ35سال سے ادبی صحافتی اور تاریخ کے بہت سے صفحات یہاں پر ہی لکھے گئے ہیں اور تو اور بہت سارے وکالتی بیانات بھی یہیں پر ”پکے “کئے گئے ہیں ۔

آج اسی ٹی سٹال پر ایک سال کے بعد مجھے لالہ جی مل گئے۔لالہ جی سے گفتگو شروع ہوتی ہے تو سب کی زبان بند ہو جاتی ہے تاہم مجھے شروع دن سے ہی لالہ جی کے سامنے کان کھلے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

لالہ جی فرماتے ہیں اس اپنی اپنی جمہوریت میں بحرانوں نے طوفانوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔کبھی ریلوے اور ہوائی جہازروں کی ٹکٹیں نہ ملنے کا شور سنا کرتے تھے آجکل تو اسلحہ لائسنس اور ڈاک ٹکٹ تک سفارش سے ملتے ہیں۔

بجلی،پانی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اپنی جگہ لیکن پٹرول کی کمی تو سرکاری بحران کی شکل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ لالہ جی کہتے ہیں”عوام ایک بحران بھگت کر نکلتے ہیں تو دوسرا سنگین بحران عفریت کی مانند منہ کھولے کھڑا ان کا منتظر نظر آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سارے دْکھ، سارے غم، سارے مصائب، ہر اذیت اور ہر مسئلہ اس ملکِ خداداد اور اس کے بے بس عوام کے لئے ہی مختص ہو گیا ہے جو حکمرانوں کی بے تدبیریوں اور خراب حکمرانی کی گواہی دیتا اس دورِ حکمرانی میں مزید عوامی مسائل کے خطرے کی گھنٹی بجاتا بھی نظر آ رہا ہے۔

یہ طرفہ تماشا ہے کہ کوئی عوامی مسئلہ اور کوئی بحران حکمرانوں کو ان کی بْری ترین حکمرانی کی بنیاد پر خجالت کا احساس دلاتا بھی نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم ہر مسئلہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، انکوائری کا حکم دیتے ہیں، بیورو کریسی کے چند لوگوں کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہیں مگر مستقل بنیادوں پر اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، حد تو یہ ہے کہ متعلقہ وزراء اپنی وزارتوں کی بے ضابطگیوں کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتے اور غیر منطقی جواز پیش کر کے اپنے مستعفی ہونے کے تقاضوں کو جھنڈی دکھا دیتے ہیں۔

چنانچہ خرابیوں کا پرنالہ وہیں کا وہیں برقرار رہتا ہے جہاں سے عوام کو اذیتیں پہنچانے اور ملک کی بدنامی کا باعث بننے والی خرابیاں پھیلتی اور حکومتی گورننس کا منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ حکمرانوں نے کسی بھی بحران اور عوامی مسئلے کو حکومت کے خلاف کسی سازش سے تعبیر کرنے کا بھی روایتی کلچر اوڑھ رکھا ہے چنانچہ کسی بحران کی اصل وجوہات کا کھوج لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی اور عوام پر آئے روز عذاب کی شکل میں کوئی نہ کوئی بحران قیامت بن کر ٹوٹتا نظر آتا ہے۔


حکومتی گورننس کی خرابی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران ملک بھر میں بجلی کے بریک ڈاوٴن کا بھی تیسرا بڑا واقعہ رونما ہوچکا ہے۔ اگر گذشتہ ماہ دسمبر اور اسی ماہ 5 جنوری کو نیشنل گرڈ میں بجلی کا سسٹم ٹرپ کر جانے کے واقعات کا ٹھوس بنیادوں پر جائزہ لے کر آئندہ ایسے کسی بحران سے نجات کے لئے کوئی پائیدار حکمتِ عملی طے کی گئی ہوتی تو ملک اور عوام کو آئے روز اسی نوعیت کے بحرانوں کی اذیت کیوں اٹھانا پڑتی۔

پانی اور بجلی کے وزیر مملکت عابد شیر علی کے اس موقف کو بھی درست سمجھا جائے کہ دہشت گردوں کی جانب سے گدو سے سبّی جانے والی مرکزی ٹرانسمیشن لائین دھماکے سے اڑانے کے نتیجہ میں سسٹم ٹرپ ہوا ہے تو بھی اس کی ذمہ داری تو ان کی وزارت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر بالخصوص بلوچستان میں ملک دشمن عناصر کے دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے باوجود وزارتِ پانی و بجلی نے اپنی حساس ترین ٹرانسمیشن لائین کی خصوصی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں کیا۔

کیا محض اس صورت حال کی وضاحت پر ہی اکتفا کیا جائے یا پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کو اس معاملہ میں اپنی وزارت کی کوتاہی اور غفلت کو تسلیم کر کے فوری طور پر اپنے مناصب سے مستعفی ہو جانا چاہئے؟ آخر حکمران طبقات میں غلطیان تسلیم کرنے کا کلچر کب پروان چڑھے گا۔ اگر انہوں نے بے نیازی اور اپنی غلطیوں کا ڈھٹائی کے ساتھ جواز پیش کرنے کا کلچر ہی اختیار کئے رکھنا ہے تو وہ سلطانی جمہور کا مْردہ اپنے ہاتھوں ہی خراب کر رہے ہیں۔

حکمرانوں کے پیدا کردہ ایسے حالات ہی غیر جمہوری طاقت و اختیار اور اقتدار کی سوچ رکھنے والے عناصر کے لئے سازگار ہوا کرتے ہیں اس لئے موجودہ دور حکمرانی میں سلطانی جمہور کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے تو یہ خود حکمران طبقات کی جانب سے ہی ہو رہی ہے۔ جہاں تک بات ہے پٹرول کی تو پٹرول کی قلت کے گذشتہ ہفتے کے سنگین بحران کے دوران ہی خود پی ایس او کے ترجمان کی جانب سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ تھرمل پاور کمپنیوں کو ادائیگی نہ ہونے اور تیل کی درآمد کے نئے آرڈر نہ دئیے جانے کے باعث آئندہ ماہ پٹرول ہی نہیں بجلی کی قلت کا بھی بحران پیدا ہو سکتا ہے مگر وزیراعظم کا سخت نوٹس لینے پر پٹرول کی قلت وقتی طور پر دور کرنے کے بعد آئندہ کے لئے اس بحران کے آگے بند باندھنے کی کوئی تدبیر اب تک نہیں کی جا سکی جبکہ فرنس آئل کی عدم دسیتابی سے بھی بجلی کا خسارہ بڑھ رہا ہے جو بجلی کی مزید قلت پر منتج ہو سکتا ہے۔

دہشت گردوں کی جانب سے بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں کو اْڑانے کا تو قطعی الگ معاملہ ہے جبکہ حکومت اور متعلقہ وزارت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کی بھی اب تک کوئی پالیسی اختیار نہیں کی۔ اس وقت موسم سرما کے باعث ملک میں بجلی کی کم سے کم کھپت ہے اور دستیاب 12 ہزار میگا واٹ سے بھی بجلی کی ضروریات پوری ہو سکتی تھیں مگر حکومتی بے تدبیریوں نے اس دستیاب بجلی میں بھی نمایاں کمی لانا شروع کر دی۔

ملک اور قوم کے ساتھ حکمرانوں کا اس سے بڑا مذاق بھلا کوئی اور ہو سکتا ہے کہ پانی کے بے بہا قدرتی ذخائر موجود ہونے کے باوجود اس وقت ڈیمز کے ذریعے ہائیڈل پاور سے صرف 2 ہزار 767 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ صرف ایک مجوزہ کالا باغ ڈیم سے 35 سو میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے، اگر ہائیڈل بجلی کی پیداوار اتنی کم ہے تو یہ اس امر کی عکاس ہے کہ بے پناہ سلٹ جمع ہونے سے منگلا اور تربیلا ڈیم بھی ناکارہ ہو رہے ہیں جبکہ تھرمل پاور پلانٹس سے حاصل ہونے والی 2764 میگاواٹ تھرمل بجلی بھی آئی پی پیز کو ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث نیشنل گرڈ میں جانے سے رک سکتی ہے۔

اس کے بعد ملک میں بجلی کی قلت کا جو بحران پیدا ہو گا وہ عوامی اذیت میں اضافے کا باعث بن کر حکمرانوں سے سنبھالا نہیں جا سکے گا۔ اگر حکمرانوں سے حکومت نہیں سنبھالی جا رہی تو وہ اپنی کمزوریوں کا اعتراف کر کے خود ہی رضا کارانہ طور پر اقتدار سے الگ ہو جائیں بصورت دیگر کل کو ماورائے آئین اقدام کی صورت میں انہیں عوام کی جانب سے ہمدردی کے دو الفاظ بھی سْننے کو نہیں مل سکیں گے،

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :