سیاسی کیمو تھراپی اور خفیہ” وچولہ“ کا پیغام

جمعہ 25 مئی 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

پاکستان کا سیاسی المیہ یہ ہے کہ ”پارلیمنٹ پسند“ کتاب دوست نہیں اور جو مطالعہ و مکالمہ کی ضرورت و اہمیت کو سمجھتے ہیں ”سیاست دان“ ان کو کچھ نہیں سمجھتے،لولی لنگڑی جمہوریت سے لے کر ”پارلیمنٹ کی مضبوطی تک،پارلیمان کی سالمیت سے لے کر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان تک“اختیارات کا ناجائز استعمال سے لے کر قانون کی”بے توقیری“ تک سب میں”وچولوں“ اور خفیہ ڈاکیوں کے کردار رہا ہے،سیاسی افراد کے مطابق منتخب نمائندوں کو”بوٹوں“ والے اس لئے گھسیٹتے ہیں کہ مبینہ طور پر وہ ان کی خفیہ”امداد“ کی وجہ سے ہی”منتخب“ ہوتے ہیں اور جب الیکشن کی صورت میں” سلیکشن“ ہوتی ہے تو”کرپشن“ ہوتی ہے اور جب کرپشن کی نشاندہی ہوتی ہے کہ”دھرن تختہ“ ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

آج کا کالم، آج کی باتیں،آج کا مکالمہ،آج کا”بیانیہ“سیاست میں”خفیہ وچولوں“ کے نام،اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے تا حیات نااہلی کی سزا پانے والے سابق وزیر اعظم کی ”سوشل میڈیا کنونشن“ کی آجکل کافی دھوم ہے،کچھ ووٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”کیا،کوئی بددیانت یا قانون وآئینی لحاظ سے 62/63پر پورا نہ اترنے والا ”شخص“ عوامی اجتماع سے خطاب کا ”حق“ رکھتا ہے،کیا جس کے صادق اور امین نہ ہونے کی نشاندہی ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کی ہو اُس کی سرعام”تبلیغ“ جائز ہے اور اگر جائز ہے تو پھر”نا اہلی“ کس بات کی؟ووٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس پر جرم ثابت ہونے کے بعد سرکاری عہدے سے ہٹا دیا گیا ہو، اُس کو پہلے جرم میں سزا دینا اور سزا کے ساتھ ساتھ دیگر جرائم یا بددیانتی کی دیگر سزائیں بھی”جیل کی کوٹھری“ میں سنائی جانی چائیں،ووٹرز کے سوال اور مطالبات اور خدشات اپنی جگہ تاہم اس پر ”روشنی“ تو آئینی و قانونی ماہرین ہی ڈال سکتے ہیں،اب آتے ہیں آج کے سب سے بڑے”جمہوری خفیہ رابطے“ کی طرف جس کی گونج ہر طرف ہے،سابق”تھری ٹائم“ وزیر اعظم اور عدلیہ کی طرف سے تا حیات نہ اہل کئے گئے ”پاکستانی شہری“ اور اُس وقت کے وزیر اعظم کو” دھرنوں“ کے دوران مستعفی ہونے کا پیغام مبینہ طور پرایک بزنس ٹائی کون اور اسحاق ڈار کے ذریعے پہنچائے جانے کا انکشاف ہوا ہے ،میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا ،قومی اخبارات میں شائع ہونے والی رپوٹس کے مطابق نواز شریف کی طرف سے دھرنوں کے دوران وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے پیغام کا جو انکشاف پریس کانفرنس میں کیا گیا ہے وہ پیغام سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ذریعے انہیں بھجوایا گیا تھا اور پیغام ملنے کے بعد نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی اس حوالے سے بات کی تھی پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈورکے ایڈیٹر برائے سیاسی آفیئرز کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دھرنے کے دوران پاکستان کے معروف پراپرٹی بزنس ٹائیکون نے اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ہنگامی طور پر منسٹر کالونی میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیں پیغام دیا کہ میرا یہ پیغام نواز شریف تک پہنچا دیں ،اس بزنس ٹائیکون نے ”مبینہ طور پر“یہ تاثر دیا کہ انہیں یہ پیغام ایک” خفیہ ایجنسی کے سربراہ “نے دیا ہے اور آپ اسے نواز شریف تک پہنچا دیں ، اسحاق ڈار فوری طور پر وزیر اعظم ہاوٴس گئے اور پیغام کے حوالے سے نواز شریف کو آگاہ کیا۔

پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات ہونا تھی جس میں اسحاق ڈار نے بزنس ٹائیکون کا نام لے کر یہ پیغام دوبارہ سنایا۔ واضح رہے کہ اسحاق ڈار کے خلاف ان دنوں احتساب عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں جب کہ وہ علاج کی غرض سے لندن میں ہیں۔”پانامہ ہنگامہ“ کی بات کی جائے تو پاکستان کی حالیہ ”سیاست“ اس کے اردگرد”گھوم“ رہی ہے بلکہ گھوم گھوم کے”تھک“ گئی ہے،پنامہ کی طرف سے انکشافات نے پاکستانی سیاست اور معاشی میدان میں وہ ”پواڑا“ ڈالا ہے کہ ”کوئی بھی کسی کو بھی این آر او“ نہیں دینا چاہتا، ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلسل”اپنا بیان“ قلمبند کراتے ہوئے سابق وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ ” قطری“ خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا۔

احتساب عدالت نے ریفرنس میں نامزد ملزمان سے الگ الگ سوالات کے جواب طلب کر رکھے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے تقریباً 4 گھنٹے تک 128 میں سے123 سوالات کے جواب پڑھ کر سنائے اور” اپنا بیان“ قلمبند کراتے ہوئے قطری خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ خطوط کی تصدیق خود حمد بن جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کی جبکہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ نہیں کیا اور جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا تبصرہ سنی سنائی بات ہے۔

احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوال کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق ”اصل سرٹیفکیٹ “پیش کیا گیا، کیا کہیں گے؟ پر نواز شریف نے کہا کہ یہ دستاویزات قانون شہادت کے تحت قابل قبول نہیں، اس دستاویز کا عائد کی گئی فرد جرم سے تعلق نہیں، واجد ضیا نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے یہ دستاویز” مذموم مقاصد “کے تحت پیش کیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ جافزا کے فارم 9 اور ملازمت کا ریکارڈ قابل قبول شہادت نہیں اور قانون شہادت کے مطابق سکرین شاٹ قابل قبول شہادت نہیں۔

گلف سٹیل کے 80 فیصد شیئرز کی فروخت 1980 کے معاہدے میں کبھی شامل نہیں رہا اور گلف سٹیل مل کی فروخت اور ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے پیش کردہ موزیک فونسیکا کے 2012 کے خط کو پرائمری دستاویز نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ خط مروجہ قوانین کے تحت مصدقہ نہیں، واجد ضیا کی دستاویز کا متن شہادت کے طور پر پڑھنا ملزم کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کے اختر راجہ کزن ہیں جن کا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدارانہ تھا۔ جیرمی فری مین کے 5 جنوری 2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی جس نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔ جیرمی فری مین کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی لیکن اختر راجہ اور جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں لینے کی کوشش نہیں کی، اختر راجہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ فوٹو کاپی پر فرانزک معائنے کا کوئی تصور موجود نہیں۔

اختر راجا نے جلد بازی میں دستاویزات خود ساختہ فرانزک ماہر کو ای میل کے ذریعے بھجوائیں اور یہ بھی حقیقت ہے فورنزک ماہر نے فوٹو کاپی پر معائنے کیلئے ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ دبئی سٹیل ملز سے متعلق نواز شریف نے کہا کہ دبئی سٹیل ملز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ مجھے باقی معاملات کا پتہ نہیں۔ اختر راجہ نے نیب کی 3رکنی ٹیم کی رابرٹ ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، اس کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی جب کہ سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا اور اختر راجہ نے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی نہیں کی۔

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے ملزم کے بیان قلمبند کیے جانے کے طریقے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ 6 دن کی لکھی ہوئی کہانی پڑھ کر سناتے رہیں، 342 کے بیان کی منشاء یہ ہے کہ ملزم بیان قلمبند کرائے جس کے دوران قانونی نکات پر وکیل سے مدد لی جاسکتی ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ میں زیادہ دیر تک پڑھتا رہوں تو” گلے میں مسئلہ“ ہوتا ہے، نیب پراسیکیوٹر کے اعتراض کے بعد نواز شریف نے خود بیان پڑھنا شروع کیا۔ یہ بھی استدعا کی کہ جے آئی ٹی کے لکھے گئے باہمی قانونی معاونت (ایم ایل ایز) کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :