میراثی نمبردار اور انصاف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل 28 ستمبر 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

انصاف ہماری زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اور ہماری زندگی میں  انفرادی اور اجتماعی زندگی پر انصاف کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انصاف  کا ہماری عام زندگی  میں اس سے کیا مراد ہے ۔مفکرین اور فلاسفر کے نزدیک انصاف کی تعریف یوں ہے  " اشیاء کو  انکے اصل مقام پر رکھنا انصاف  کہلاتا ہے"۔ اور دوسری طرف   انصاف کا الٹ  ظلم  اور نا انصافی ہے  جس کی تعریف  یوں ہے " اشیاء کو ان کے اصل مقام سے ہٹا دینا   ظلم اور نا انصافی کہلاتا ہے۔

در حقیقت  انصاف  انفرادی  زندگی ،معاشرے  اور تمام دنیا  میں امن و سکون کا باعث ہے  کسی معاشرے  میں عدل و انصاف  کا لازمی  نتیجہ امن و سلامتی ہے ۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے: ’’اور جب لوگوں کا (خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں) تصفیہ (فیصلہ) کیاکرو تو عدل سے تصفیہ کیا کرو۔

(جاری ہے)

‘‘ (سورۃ  النساء، آیت نمبر:۵۸
دوسری جگہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے لئے پوری پابندی کرنے والے انصاف کے ساتھ شہادت ادا کرنے والے رہو اور کسی خاص قوم کی عداوت تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہوجائے کہ تم عدل نہ کرو، عدل کیا کرو۔

(ہر ایک کے ساتھ) کہ وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت نمبر :۸)
مذکورہ آیت میں واضح طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ انصاف قائم کرنا اور اس پر قائم رہنا حکومت اور عدالت ہی کا فریضہ نہیں، بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ خود بھی انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو بھی انصاف پر قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ (معارف القرآن: ج۲،ص۵۷۲)
عدل و انصاف کے سلسلے میں  حضورؐ کے کچھ ارشادات
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے  روایت ہے کہ رسول اللہ   ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عدل و انصاف کرنے والے بندے اللہ تعالیٰ کے یہاں نور کے منبروں پر ہوں گے، اللہ کے داہنی جانب یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال اور متعلقین کے ساتھ معاملات میں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں۔

(رواہ مسلم)
 اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح آدمی کو دوسروں کے ساتھ عدل و انصاف کی تاکید ہے اسی طرح اس پر اپنے اہل خانہ اور آل واولاد کے ساتھ عدل و انصاف کی تاکید ہے، ظلم ہرجگہ ظلم ہے، خواہ بیوی اور اولاد ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔
حضرت ابوسعیدؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنے والا حاکم قیامت کے دن اللہ کو دوسرے سب بندوں سے زیادہ محبوب اور پیارا ہوگا، اس کو اللہ کا سب سے زیادہ قرب حاصل ہوگا اور قیامت کے دن اللہ کا سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ عذاب میں مبتلا ظلم کرنے والا حاکم ہوگا۔

(جامع ترمذی، باب ماجاء في امام عادل)
 چونکہ حاکم کے پاس قوت اور طاقت ہوتی ہے، اس لئے قدم قدم پر اس سے ظلم و تعدی کا عمل ظاہر ہوسکتا ہے، اللہ کے نبیؐ  کا یہ ارشاد اس کو آگاہ کرتا ہے کہ قیامت کے دن تم کو بھی بادشاہوں کے بادشاہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور اس کی عدالت میں ہمیشہ فیصلہ مظلوم کے حق میں ہوگا، اس لئے یہاں ظلم سے اپنے آپ کو محفوظ رکھو، تاکہ قیامت میں اللہ کے محبوب بن سکو۔


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مسافر  کو کسی گاؤں   میں شام ہو جانے کی وجہ سے  رات گزارنی تھی  تو اس  نے گاؤں کا  پہلا گھر  دیکھا تو ان سے کہا کہ مسافر ہوں رات گذارنی ہے صبح ہوتے ہی چلا جاؤں گا ۔ وہ گھر میراثی کا تھا ۔ میراثی نے اپنی بساط کے مطابق خدمت کی اور چارپائی بچائی  اور تھکا ہوا مسافر اپنی گھوڑی کو باندھ کر سو گیا ۔ دن نکلا تو دیکھا کہ گھوڑی نے  بچہ(وچھیرا) دیا ہے اس سے پہلے کہ مسافر کوئی بات کرتا میراثی نے کہا ۔

کہ ہماری گائے نے  بچہ (وچھرا ) دیا ہے ۔ مسافر بڑا پریشان ہواکہ بچہ میری گھوڑی کا ہے ۔ مگر میراثی نا  مانے ۔ گلی میں نکل کر میراثی نے چند لوگ جمع کیے اور ان کو سارا واقع بتایا ۔ محلے والوں نے سوچا کہ یہ مسافر ہے اور یہ تو چلا جائے گا مگر میراثی تو اپنا ہے اس لیے سب نے یک زباں ہو کر میراثی کے حق میں فیصلہ دیا ۔ مسافر  روتا ہوا گاؤں کے نمبردار کے پاس گیا اور اس سے ساری بات کی ۔

  نمبردار چوہدری   نے سوچا کہ میراثی اپنے گاؤں کا ہے ہمارے بہت کام کرتا ہے یہاں تک کہ رشتے بھی کرواتا ہے اور میرے اچھے اور برے کارناموں کا بھیدی ہے اس لیے میراثی کے حق میں فیصلہ دیا جائے  اور مسافر تو چلا جائے گا اور مجھے سارے کام میراثی سے ہوتے ہیں ۔ اس طر ح نمبردار نےکہا کہ میرے دادا نے مرنے سے پہلے کہا تھا کہ  ہر پانچ سال کے بعد میراثی   کی گائے بچہ(وچھیرا ) جنم دے گی ۔

مسافر  نے سوچا کہ جہاں  اس طرح کا انصاف ہو رہا ہے کہیں میراثی میری گھوڑی پر قبضہ نا کر لے نکلو ۔ اس نے فوراً اپنی گھوڑی پکڑی اور چل دیا ۔ مگر میراثی نے زارو قطار رونا شروع کر دیا سب نے کہا کہ اب  نمبردارکی وجہ سے سارا مسلہ حل ہو گیا ہے  پھر بھی آپ رو رہے ہو  تو میراثی نے روتے ہوئے کہا کہ وہ تو سب ٹھیک ہے مگر رونا  تو اس بات کا ہے کہ اگر نمبردار مر گیا تو ایسا انصاف کون کرے گا
اب لاہور  ہائی کورٹ میں  انصاف کی  انتہا یہ ہے کہ اتوار والے دن لوگوں کو گھر سے ضمانت دے دی جاتی ہے ۔

چور کو پچاس روپے کی اشٹام پر لندن بھیج دیا جاتا ہے ایک شریف کی  جسٹس عبدالقیو م  کو فون کال  کی جاتی اور  بیگناہ  لوگوں  کو   مرضی کی سزا دلوائی  جاتی تھی ۔ مگر اب رونا یہ نہیں کہ پسند کا انصاف نہیں مل رہا بلکہ رونا تو یہ ہے کہ ایسے جج اب زلیل ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ پر جو آ رہے ہیں وہ تو ٹھیک انصاف کریں گے ۔  اور میراثی کا یہی رونا ہے۔


عدل قرآن کریم کی اصطلاح ہے ’’ان اللہ یأمر بالعدل والاحسان‘‘ (سورۃ النحل ۹۰) کہ بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں بھی ایک اسم ’’عادل‘‘ ہے یعنی اللہ تعالیٰ عدل کرنے والے ہیں۔ اور جناب نبی کریمؐ کے اسماء میں بھی ایک اسم ’’عادل‘‘ ہے یعنی رسول اللہؐ بھی عدل کے پیکر تھے، عدل کرنے والے تھے۔

ہر چیز کا حق ادا کرنے کو عدل کہتے ہیں۔ عدل کے مقابلے میں ظلم کا لفظ آتا ہے۔ ظلم کہتے ہیں کسی کے ساتھ ناحق سلوک کرنے کو، کسی کے حق کو ضبط کرنا یا کسی کا حق دوسرے کو دے دینا۔
یہی عدل و انصاف کا کامل نمونہ تھا جس سے اسلام قلیل مدت میں مشرق سے مغرب تک پھیل گیا اور دنیا کی قومیں صدیوں پرانے اپنے مذہبی رشتے توڑ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوگئیں، اسلام نے ہی سارے انسانوں اور ساری قوموں میں قانونی اور اخلاقی یکسانی پیدا کرکے عالم گیر اخوت کی بنیاد ڈالی اور یہ محض اس لئےکہ اس نے ہر چیز کا معیار قومی حد بندیوں کو قرار دینے کے بجائے قانونِ خداوندی اور اصول پسندی کو قرار دیا۔


در حقیقت انصاف انفرادی زند گی، معاشرے اور تمام دنیا میں امن و سکون کا با عث ھے۔ کسی معا شرے میں عدل و انصاف کا لازمی نتیجھ امن و سلامتی ھے۔
اگر ھم اپنے معا شرتی نظام پر غور کریں تو ھم اس نتیجے پر پہنچیں گے کھ معاشرے میں ہر فرد کے کچھھ حقوق اور کچھھ فرائض ھیں۔ جنکو بجا لانا اچھی زند گی گزارنے کے لیے بہت ضروری ھے۔ اگر ھم اس ضمن میں مزید گہرائی میں جا کر غوروفکر کریں۔

تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ایک شخص کے حقوق دراصل دوسرے کے فرائض ھیں۔ اور دوسرے کے فرائض پہلے کے حقوق ھیں۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض کامل دیانتداری اور ایمانداری سے ادا کرے۔ تو اس سے نا صرف اس شخص کے حقوق پورے ھوں گے۔ بلکھ دنیا کا ہر فرد اپنے حقوق و فرائض  سے عہدہ برآ ھو گا۔ تمام لوگ  خوش اور مطمئن ھوں گے۔ ایک دوسرے سے راضی ھوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :